’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا ‘،الن فقیر نےروایتی لوک گائیکی کو ایک نیا انداز بخشا

کراچی:’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا ‘، یہ وہ گانا ہے جسے سن کر  سندھی  لوک گائیک الن فقیر کی  یاد آتی ہے۔ الن فقیر نےروایتی لوک گائیکی کو ایک نیا انداز بخشا۔محمد علی شہکی کے ساتھ گایا جانا والا نغمہ”تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا” ان کی فنی شہرت میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ ان کا ایک ملی نغمہ اتنے بڑے جیون ساغر میں تو نے پاکستان دیا بھی بہت مشہور ہوا۔معروف لوک گلوکار الن فقیر کو دنیا سے رخصت ہوئے 24 برس بیت گئے ہیں۔


سندھی زبان کے لوک فنکار الن فقیر صوبہ سندھ کے علاقے جام شورو میں 1932 میں پیدا ہوئے۔الن فقیر نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی، ان کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انہیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا ہے۔الن فقیر کی گائیکی نے فلسفیانہ عشقِ الہیٰ کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔


سندھی لوک گلوکار الن فقیر کا تعلق صوبہ سندھ کے ضلع دادو سے تھا، انہوں نے صوفیانہ کلام گا کر روایتی لوک گلوکاری کو ایک نیا انداز دیا، الن فقیر نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ سندھ کے روایتی ثقافتی پہناوے کو بھی دنیا بھر میں متعارف کروایا۔


ان کے والد ایک ڈھولچی تھے جو شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتے تھے، الن فقیر اگرچہ صوفی تھے لیکن انہوں نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا وہ گھر بار چھوڑ کر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر سکونت پذیر ہو گئے ۔


گلوکار الن فقیر کی پرفارمنس کا انداز منفرد اور والہانہ تھا، ان کی گلوکاری کا بڑا حصہ سندھی زبان پر مشتمل ہے مگر ان کے اردو میں گائے ہوئے گیت بھی ریکارڈ توڑ مقبولیت کمانے میں کامیاب رہے۔1980ء میں حکومت نے فنکارانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں الن فقیر کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔

 

 چار جولائی 2000ء کو الن فقیر 68 برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے مگر ان کی آواز آج بھی لوک موسیقی کے دلدادہ افراد کے کانوں میں گونج رہی ہے۔