مخصوص نشستیں کیس: جس کا جو حق ہے ملنا چاہیے، جسٹس منصور علی، اس کا مطلب آپ آدھا فیصلہ کر چکے، چیف جسٹس 

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ معاملے کی سماعت کی۔ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

 

کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔

 

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر کے تیسرے روز بھی دلائل دیے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں 30 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا، میں 4 قانونی نکات عدالت کے سامنے رکھوں گا، پارٹی سرٹیفکٹس جمع کرانے کے وقت پی ٹی آئی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا، الیکشن میں سرٹیفیکٹ گوہر علی خان کے دستخط سے جمع کرائے گئے، پی ٹی آئی نے اس وقت انٹرا پارٹی الیکشن قانون کے مطابق نہیں کرائے تھے، فارم 66 جمع کراتے وقت پی ٹی آئی کا کوئی ڈھانچہ نہیں تھا۔آزاد امیدواروں کے پارٹی سرٹیفکیٹ کا ریکارڈ جمع کرایا ہے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ جس کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں اس کا کیا ہوگا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ کے بغیر والے آزاد امیدوار تصور ہوں گے۔

 

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکٹ منسلک ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔

 

جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟ سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔

 

وکیل الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحادکونسل کا امیدوار کہا، حامدرضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کروائی۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ حامد رضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامدرضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکٹ دینا چاہیے تھا یا آزادامیدوار کا؟ وکیل نے کہا کہ حامد رضا کو سنی اتحادکونسل کا سرٹیفیکٹ جمع کروانا چاہیے تھا۔

 

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن میں تو حامدرضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہرکیا نہ کہ آزادامیدوار۔

 

وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر کو آیا، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہوسکتا تھا۔

 

اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا تحریک انصاف کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہوجاتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آرہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔

 

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہے۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔

 

بعد ازاں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمدخان نے سرٹیفیکٹ نہ ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ہوا، ایسے بےشمار ہیں جو کاغذات نامزدگی میں بلینک ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ  ایسے امیدوار آزاد مانے  جاتے ہیں۔

 

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ 4 لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزادامیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل سے ضم نہیں ہوئے، جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفیکٹ دیا لیکن وہ آزادامیدوار کیسے قرار پائے؟ جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفیکٹ، ڈیکلریشن منظور ہوا؟

 

وکیل نے جواب دیا کہ سب آزادامیدوار ہی رہے، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ تین روز میں کسی سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہوجائے گا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے درخواست میں کہا بلوچستان عوامی پارٹی نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی لیکن انہیں دی گئیں، الیکشن کمیشن نے کیا اس ریکارڈ پر کوئی میٹنگ رکھی؟ ریکارڈ کو پرکھا؟

 

اس پر وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ ایسا کوئی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہیں، موجودہ کیس میں تو مکمل سماعت ہوئی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کو کم سے کم گزشتہ انتخابات کو تحریر کرنا چاہیے تھا، ابھی پوزیشن کچھ اور ہے، اس سے قبل کچھ اور رکھی، آپ نے تو بلوچستان عوامی پارٹی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں میں نہیں مل سکتیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔

 

اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا بیرسٹر گوہرعلی خان موجود ہیں؟ ان کے سوال پر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔

 

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے دریافت کیا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفیکٹ جمع کروائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے؟اس پر گوہر علی خان نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو دو فارم جمع کرو سکتا ہے، میں نے آزادامیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔

 

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لیے آپ نے؟ گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ایک حلقے کے لیے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، میں نے الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفیکٹ پہنچا دیے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔

 

واضح رہے کہ کیس میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں۔پی ٹی آئی نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔