غیر سیاسی بیوروکریسی

ان دنوں پنجاب میں غیر سیاسی بیوروکریسی کی باتیں کی جا رہی ہیں کیونکہ ایک عرصہ سے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کا ایک بڑا مسئلہ سیاسی مداخلت بھی چلا آ رہا ہے، بیوروکریسی کو حکومت اور حکمرانوں کے احکامات اور معاملات کو تو دیکھنا ہی ہوتا ہے تاکہ گورننس کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے لیکن سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بیوروکریسی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کر پاتی۔ اس کی مثال ایک طرف نیب کا ادارہ ہے جس کو حکمران اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور اپنا تابع فرمان بنائے رکھنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، ماضی قریب میں نیب کا عمل دخل اتنا بڑھا دیا گیا تھا کہ بیوروکریسی نے مناسب فیصلے کرنا ہی چھوڑ دیئے تاکہ کسی بھی حوالے سے احتساب کی زد میں نہ آ جائیں، جب معاملات بالکل ہی جمود کا شکار ہو گئے تو نیب قوانین میں ترامیم کی گئی اور اس کے اختیارات کو کچھ کم کیا گیا تاکہ وہ بیوروکریسی اور دوسرے انتظامی ڈھانچے پر اثر انداز نہ ہو سکے، دوسری طرف اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے کے لئے کچھ بیوروکریٹس کی حکمرانوں کے سیاسی عزائم کو پروان چڑھانے کے لئے ان کا آلہ کار بننا بھی تھا۔

بیوروکریسی کسی ملک یا معاشرے میں عوامی نظم کی آئیڈیل صورت حال کی غماز ہوتی ہے، یہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈسپلن، مساوات، شعور اور انصاف کو یقینی بناتی ہے، اچھی بیوروکریسی وہی ہوتی ہے جو وضع شدہ اور قائم کردہ رولز اور پروسیجرز کا ہر طرح سے خیال رکھتی اور ان کے مطابق چلتی ہے، ایک اچھی بیوروکریٹک ٹیم میں عمومی طور پر درج ذیل سات خصوصیات موجود ہوتی ہیں،جن کے مطابق ایک اچھا بیوروکریٹ مقررہ طریقہ کار اور قوانین پر کاربند رہتے ہوئے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ فیصلہ کرتا ہے اور پھر اس فیصلے پر قائم اور برقرار رہتا ہے، وہ پر اعتماد ہوتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ اپنے کردار اور ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے یہ ذمہ داریاں کیسے نبھانی ہیں، دوسرے لفظوں میں وہ فرض شناس ہوتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ پوری طرح مستعد اور آگاہ ہوتا ہے کہ کیا کرنے جا رہا ہے، اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور جو بھی نتائج برآمد ہوں گے ان پر اسے جواب دہ بھی ہونا پڑ سکتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ بالکل واضح ہوتا ہے کہ اس کے کسی اقدام میں کتنے خطرات مضمر ہو سکتے ہیں یا اس کا کوئی اقدام کون سے خطرات یا خرابیوں سے ملک یا معاشرے کو بچا سکتا ہے، وہ ان خطرات اور خدشات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ ہر طرح کے معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے، وہ کسی بھی طرح کی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ کسی معاملے کی قانونی جہتوں سے پوری طرح واقف اور آگاہ ہوتا ہے اور وہ ہر قدم قانونی حدود و قیود اور نتائج و عواقب کو پیش نظر رکھ کر اٹھاتا ہے۔ اچھا بیوروکریٹ ہر کام دستاویزی کرتا ہے، اس کا ہر فیصلہ ڈاکومنٹڈ ہوتا ہے اور اس کا ہر اقدام ثبوت کے ساتھ ہوتا ہے۔

جس بیوروکریٹ میں مندرجہ بالا ساری خوبیاں ہوں وہ ایک بہترین بیوروکریٹ ہوتا ہے اور بیوروکریٹس کی جس ٹیم میں درج بالا ساری خصوصیات موجود ہوں وہ ایک اچھی اور بہترین بیوروکریٹک ٹیم کہلا سکتی ہے۔ ایک بیوروکریٹ ان اصولوں پر جتنا زیادہ کاربند رہتا ہے اتنا ہی معاملات کو اچھے انداز میں آگے بڑھا سکتا ہے اور گڈ گورننس کا سبب بنتا ہے۔ ایک زمانے میں اپنے اختیارات کی وجہ سے سیکرٹری یا کمشنر اپنے محکمے یا ڈویژن کا بادشاہ کہلاتا تھا، اب بھی جبکہ جواب دہی کا عمل کچھ بڑھ گیا ہے سیکرٹری یا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہی حکومت کہلاتے ہیں کیونکہ ان کا کام حکومت کی وضع کردہ پالیسیوں پر اپنے اپنے دائرہ کار میں عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوتا ہے، یہ عمل درآمد اگر اچھے طریقے سے ہو تو گورننس، گڈ گورننس بن جاتی ہے اور اگر عمل ٹھیک طریقے سے نہ کیا جائے تو حکومت پر سے عوام کا اعتماد اٹھنے میں دیر نہیں لگتی اور جو حکومت عوام میں مقبول نہ رہے اس کا کیا بنتا ہے اس سے شاید کوئی بھی بے خبر نہ ہو گا، اسی لیے تو بیوروکریسی کو حکومت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے۔
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں، کمشنری نظام برطانوی دور میں متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد زیر قبضہ ممالک کے عوام کو غلام اور تابع بنائے رکھنا تھا چنانچہ تاجِ برطانیہ کے اس خاص نمائندے کو وسیع اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ اس دور میں ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس اتنے زیادہ اختیارات ہوتے تھے کہ وہ اپنے ضلع کا کلی مالک و مختار ہوتا تھا اور تاجِ برطانیہ یا زیادہ سے زیادہ وائسرائے کے سوا کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا تھا، اس کے بنیادی کام ضلع میں امن و امان قائم رکھنا اور انتظامی معاملات پر کنٹرول رکھنا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے ضلع کے عوام کو سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی۔ زیادہ پرانی بات نہیں اسے ضلعی مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل تھے مگر مشرف دور میں کمشنری نظام ختم کر کے ضلع کا حاکم ڈی سی او کو بنا دیا گیا اور اس کے ضلعی جج کے اختیارات ختم کر دیئے گئے تھے۔ اگرچہ شہباز شریف نے کمشنری نظام بحال کر دیا تھا مگر اختیارات پہلے جیسے نہیں رہے اس کے باوجود ایک ڈپٹی کمشنر گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کر سکتا ہے، آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ڈپٹی کمشنر کے اتنے اختیارات ہو سکتے ہیں تو کمشنر کے اختیارات کا کیا عالم ہو گا، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر، چیف سیکرٹری یا سیکرٹری کو آئین کے مطابق ریاستی، حکومتی، عوامی معاملات کو چلانا ہوتا ہے، ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ حکمرانوں کو راضی رکھا جائے اور عوام بھی ان سے مطمئن رہیں۔

اب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ بیوروکریسی کو سیاست سے بالا رکھنا چاہتی ہیں، پنجاب حکومت نے گزشتہ دنوں اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو بھی آگاہ کیا کہ نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے اراکینِ صوبائی و قومی اسمبلی کی سفارش پر صوبائی سول انتظامیہ میں تقرریوں کی اجازت نہیں دی جائے گی، یہ بڑی اچھی بات ہے، بیوروکریسی کو سیاسی اثر سے نکالا جائے گا تو اس کی کارکردگی مزید اچھی اور بہتر ہو جائے گی۔

اس وقت پنجاب میں بیوروکریٹس کی ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے، چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے یہ ٹیم بڑی محنت سے تیار کی ہے اور وہ اس ٹیم کے ذریعے پنجاب میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ چاروں صوبائی حکومتوں میں سے کارکردگی کے حوالے سے پنجاب حکومت پہلے نمبر پر آتی ہے۔بیوروکریسی کو سیاسی دباؤ سے آزاد کریں گے تو اس کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور یوں ممکن ہے گڈ گورننس سے آگے کی بھی کچھ مثالیں قائم کی جا سکیں۔