خوشحالی کی قوس قزح دیکھنے کی منتظر ہے نگاہ!

 

بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوتا ہے اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قومی خزانے میں زیادہ سے زیادہ پیسا جمع ہو تاکہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے ادا کیے جا سکیں علاوہ ازیں اس کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے۔ یعنی سڑکوں و عمارات کی تعمیر‘ تعلیم صحت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور سرکار کے نظام کو چلانے کے لئے ظاہر ہے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے جو ان قرضوں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔

کل تک ہم یہی کہتے آئے ہیں کہ قرضوں کا استعمال غلط یا غیر متعلقہ منصوبوں پر ہوتا ہے پھر ان میں حکمران خورد برد کرتے ہیں۔اب ہمارا یہ کہنا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی بھی کرپشن نہیں کی کمیشن نہیں کھایا وہ تو ہمیشہ عوام کی سوچتے ہیں ان کی بہتری کے لئے باہر جاتے ہیں وہاں سے منتیں ترلے کرکے بھاری رقوم لاتے ہیں اور لا کر عوام کی بہتری کیلئے مختص کر دیتے ہیں یہ عوام ہیں کہ جنہیں اپنے حکمرانوں کی قدر نہیں جو کوئی بھی تخت نشیں ہوتا ہے اس پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ دیکھئے حکمرانی کرنا بڑا مشکل کام ہے یہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرسکے لہٰذا حکومتوں پر تنقید ختم ہو جانی چاہیے لوگوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ بھاری ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں وگرنہ آج کے دور میں تو والدین اپنے بچوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں حکومتیں تو ایسا نہیں کہتیں وہ دوسرے ملکوں میں جاکر عوام کے لئے ہاتھ پھیلاتی ہیں کہ انہیں کچھ دیا جائے تاکہ ان کے عوام کی سانسیں بحال رہ سکیں اور وہ ان کی اْڑی رنگت دیکھ کر اپنی گرہ ڈھیلی کر دیتے ہیں مگر عجیب بات ہے کہ اس وقت موجودہ حکومت پر پی ٹی آئی کا ہر چھوٹا بڑا سیاسی رہنما بولے جا رہا ہے اسے یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب اس کی جماعت کا دور تھا تو مہنگائی نہیں بڑھی تھی کیا؟ یہ درست ہے کہ پہلے مہنگائی کو مختلف بند باندھ کر روکا گیا تھا لہٰذا جب وہ بند ٹوٹے تو ایک سیلاب آگیا ایسا مگر دانستہ نہیں کیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ ہر حکومت اپنے عوام کی بہتری کے لئے سوچتی ہے آج جب مہنگائی بے روز گاری ہے اور بجلی گیس یا اشیائے روزمرہ کی قیمتیں بے مہار ہیں تو حکومت کا کیا قصور وہ بے قصور ہے۔پھر جو پیسا ٹیکسوں سے آرہا ہے وہ سیدھا سرکار کے خزانے میں جا رہا ہے لہٰذا روایتی

سوچ کو بدلنا ہو گا۔جو اودھم پی ٹی آئی نے مچایا ہوا ہے جائز نہیں اس کے پاس معاشی پروگرام نہیں لوگ جذباتی ہیں بس اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ خان آئے گا تو سب ہرا ہو جائے گا ایسا ممکن نہیں موجودہ حکمران ہی خزاں کو بہار میں بدلیں گے کیونکہ یہ تجربہ کار ہیں انہیں معلوم ہے کہ کیسے نظام مملکت کو چلانا ہے اور کیسے بیرونی دنیا سے رابطہ کرکے انہیں گھیر گھار کے یہاں لانا ہے لہٰذا انہیں وقت چاہیے پانچ برس تک انہیں سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ہماری اس خواہش و تجویز سے بہت سے ارسطو نما تجزیہ کار و دانشور اتفاق نہیں کریں گے جبکہ ایک دو برس میں بندہ ماحول سے مانوس ہونے میں گزار دیتا ہے لہٰذا بے چین ہونے والوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ تھوڑا صبر کر یں تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں ابھی تو وہ آئے ہیں انہیں پچھلے دو برسوں کے معاملات کو بھی دیکھنا ہے کہ ان مین عوام کو جو دن دیکھنا پڑے ہیں ان کے بارے میں بھی غور کرنا ہے بجٹ چوبیس پچیس کی بھی صورت حال کو جانچنا ہے مگر ہمارا موقف ہے کہ قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں کئی مشکلات پیش آتی ہیں اس کے بعد مگر وہ خوشحالی کی منزل تک پہنچ جاتی ہیں لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ہمیں دس پندرہ برس تک چھوٹی بڑی پریشانیوں کا سامنا رہے گا لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں یقیناً اچھے دن آئیں گے اور ان کا چند ماہ کے بعد آغاز ہو جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت معیشت کو مضبوط بنانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے کہ چین سے تعلقات کو بہتر بنا کر اس سے اربوں ڈالرز کے پروجیکٹس شروع کروا رہی ہے

مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومتِ بھی اس سے پیچھے نہیں وہ بھی سہولتوں کی فراہمی کے لئے سر گرم عمل ہے اگرچہ نئے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں مگر ہمارا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی جانب ایک قدم ہے اس کے بعد یقینی طور سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی یہاں ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ حکمرانوں میں دولت مند بننے والے لوگوں سے متعلق یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ امیر کیسے ہو گئے تو جناب وہ اپنی محنت سے امیر ہوئے ہیں ان میں اتنی اہلیت و قابلیت ہوتی ہے کہ وہ ڈھیروں دولت کے مالک بن سکیں لہذا انہیں غلط نہیں کہنا چاہیے۔ اب سوچ کے زاویے کو تبدیل کر لینا چاہیے۔اپنے حکمرانوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے اور تضحیک نہیں کرنی چاہیے اگر وہ نہ ہوں تو ہمارا جینا مشکل ہو جائے وہ ہمارے لئے آسانیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اپنی نیندیں حرام کرتے ہیں ہر وقت بے چین رہتے ہیں پھر جب وہ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو ان میں سے بعض کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑتا ہے عدالتوں کے دھکے بھی کھانا پڑتے ہیں گھر سے بے گھر بھی ہونا پڑتا ہے لہذا ہم نے ان سے متعلق اپنی رائے بدل لی ہے یہ اپنے دل میں عوام کا درد رکھتے ہیں لہٰذا موجودہ حکومت جو بھی کر رہی ہے اس میں ان کی بھلائی ہے مگر مٹھی بھر افراد اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں عوام بھی ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انہیں اس امر کی سمجھ ہی نہیں کہ سرکار ان کے لئے کس قدر سنجیدہ ہے لہٰذا وہ حوصلہ رکھیں صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں ان کی جیب سے نکلنے والا ایک روپے کا سکہ بھی اللوں تللوں کی نزر نہیں ہوگا۔ آنے والے دنوں میں جو بجلی کی قیمت میں اضافے کا امکان ہے وہ براہ راست ملکی خزانے میں جائے گا جو بھرے گا تو ہمارا”بھڑولہ“ بھرے گا

لہٰذا موجودہ حکومت کی جتنی ہو سکے تعریف کی جائے وہ بڑی دور اندیش ہے اسے ہم سب کی فکر ہے لہذا اس کے اقدامات کو سراہنا چاہیے۔ستتر برس سے جاری انداز سیاست کو ترک کر دینا چاہیے کہ جس میں ایک جماعت کے کارکنان ووٹرز اور سپورٹرز دوسری جماعت کی حکومت کے طرز عمل اور اس کی عوامی خدمات جو جتنی بھی ہوتی ہیں کا اعتراف نہیں کرتے جس سے یک جہتی کا تاثر نہیں ابھرتا اور یہ نظر آتا ہے کہ ایک دھڑا دوسرے کو پسند نہیں کرتا اس طرح کا ہمارا رویہ درست نہیں اسی لئے اب تک ہم ترقی و تعمیر کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسائل حل کرنے کے لئے سخت محنت کرنا پڑ رہی ہے لہٰذا ہمیں سنجیدہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معیشت کی بحالی میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ خوشحالی کا دیا روشن ہو سکے!