غیرت ہے بڑی چیز۔۔۔۔

 

25جون 2024ء کو امریکی ایوانِ نمائندگان نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں 8فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات میں ہیرپھیر کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کاکہا گیا۔ پاکستان کے دفترِخارجہ کی ترجمان زہرہ بلوچ نے کہا کہ یہ قرارداد پاکستان کے امورِداخلہ میں غیرضروری مداخلت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت اور مجموعی طور پر پانچویں سب سے بڑی جمہوریت ہے اور پاکستان اپنے قومی مفاد کے مطابق آئین پرستی، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی اقدار کا پابند ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ہواہے کہ عام انتخابات میں مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے حوالے سے امریکی ایوانِ نمائندگان کی قرارداد پر مقتدر حلقوں کی جانب سے بھرپور ردِعمل کا اظہار کیاگیا ہے۔ نائب وزیرِاعظم اور وزیرِخارجہ اسحاق ڈارنے قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران امریکی قرارداد کاسخت نوٹس لیتے ہوئے کہاکہ اِس حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔ کچھ چیزیں بہت حساس ہیں جن میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ ہم اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ ہم بھی یہاں بیٹھ کر دوسرے ملکوں کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ امریکہ کوجمہوریت سے متعلق اپنا 100 سالہ ریکارڈ دیکھنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا ”امریکہ میں یہ الیکشن کاسال ہے۔ 2020ء کے انتخابات میں بائیڈن منتخب ہوئے تو ٹرمپ نے نتائج ماننے سے انکار کردیا۔ امریکہ پہلے اپنے انتخابات کو شفاف بنائے پھر دوسروں پر الزام لگائے۔ امریکہ سُپرپاور ہے اُسے یہ چیزیں زیب نہیں دیتیں“۔
27جون کو رُکنِ پارلیمنٹ شائستہ پرویزملک نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں کہاگیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے جو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ امریکہ اور عالمی برادری کو غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتوجہ دینی چاہیے۔ امریکی کانگرس کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربھی نظر ڈالنی چاہیے۔ امریکی قرارداد مکمل طورپر حقائق پر مبنی نہیں۔ شائستہ پرویزملک نے کہا کہ امریکی قرارداد نان بائینڈنگ ہونے کے باوجود ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ پیپلزپارٹی کی رُکنِ قومی اسمبلی شگفتہ جمانی نے کہا ”امریکہ کو وارننگ دے رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں دہشت گردی مچائی ہوئی ہے“۔
قومی اسمبلی میں امریکی کانگرس کی قرارداد کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔ حیرت مگر یہ کہ تحریکِ انصاف (موجودہ سُنی اتحاد کونسل) کے ارکان کی جانب سے قرارداد کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ سُنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ایوان میں شدید نعرے بازی کی اور نشستوں پر کھڑے ہوکر شیم شیم کے نعرے لگائے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اُچھال دیں جس پر ن لیگ کے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ اپوزیشن والے غدار ہیں اور لابنگ فرم کے ذریعے ملک کیخلاف سازش کررہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”امریکی ایوانِ نمائندگان کی قرارداد کو مداخلت نہیں کہا جاسکتا“۔ بیرسٹر گوہر سے سوال ہے کہ اگر یہ مداخلت نہیں توپھر اُن کے نزدیک مداخلت کیا ہے؟۔
تحریکِ انصاف شاید اِس غلط فہمی میں مبتلاء ہے کہ قوم مرضِ نسیاں میں مبتلاء ہے اور ماضی قریب کے نعرے اور دعوے بھی بھول چکی۔ حقیقت مگر اِس کے برعکس، قوم کو ایچ نائن پارک اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کا وہ جلسہ خوب یاد ہے جس میں عمران خاں نے ایک کاغذ لہرا کریہ کہاتھا کہ امریکہ اُس کی حکومت کے خاتمے کی سازش کررہا ہے۔ حقیقت مگر یہ کہ عمران خاں کی حکومت وہ واحد حکومت تھی جسے آئینی طریقے سے ہٹایا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک طرف تو عمران خان ”کیا ہم کوئی غلام ہیں“ جیسے نعرے لگاکر قوم کے جذبات بھڑکاتے اور بیوقوف بناتے رہے جبکہ دوسری طرف 2022ء میں ہی ماضی میں سی آئی اے کے سابق آفیسر رابرٹ لارنٹ گرینیئرکی فرم کو میڈیا اور سیاسی لابنگ کے لیے ہائر بھی کیا۔ مصدق ملک نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی نے جس امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں وہ پاکستان کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی شدید مخالف ہے۔ دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی نے 6ماہ کے لیے 25ہزار ڈالر ماہانہ پر لابنگ فرم ”فینٹن آرلوک کی خدمات حاصل کیں۔ اِسکے علاوہ 21فروری 2023ء کوواشنگٹن میں قائم امریکی لابنگ فرم ”پرایا کنسلٹنٹس“ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ امریکہ کے معروف امریکی پاکستانی اور پی ٹی آئی کے حامی فیاض قریشی نے سٹیفن پائن کی قیادت میں LGSLLC کو 16مارچ 2024ء تک 45دنوں کیلئے 50ہزار ڈالر پرہائر کیا۔ سٹیفن پائن اِس سے قبل آمرپرویز مشرف کیلئے بھی لابنگ کی خدمات سرانجام دے چکا ہے۔ اِس فرم نے ارکانِ کانگرس میں پی ٹی آئی اور اُس کے ارکان سے معاملات میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ امریکی حکومت حکومتِ پاکستان کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیاجا سکے۔ یہ سب کچھ اُس کے کچھ دن بعد ہی کیاگیا جب عمران خاں نے امریکی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ جنرل قمرجاوید باجوہ کے ذریعے ڈونلڈ لو کی سازش پراُن کی حکومت گری۔ عمران خاں نے صرف امریکی حکومت پرہی الزام عائد نہیں کیا بلکہ پہلے امریکہ پھر قمرجاوید باجوہ پھر لندن پلان میں میاں نوازشریف کی سازش پھر حکومت گرانے میں محسن نقوی کاہاتھ پھر آصف زرداری اور غیرملکی طاقتیں اور آخر میں یہاں تک کہہ دیاکہ جنرل باجوہ نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کوتحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف ہائر کیا۔ اب یہ تو خاں صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ اُن کی حکومت گرانے میں کتنے ہاتھ ملوث تھے۔ البتہ یہ طے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی قرارداد عمران خاں اور اُن کے ساتھیوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اِس سے پہلے بھی عمران خاں اپنے ہی وطن کے خلاف سازشیں کرتے اور اُسے ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خاں نے 2 دفعہ خط لکھ کر آئی ایم ایف کو قرض دینے سے منع کیا۔ اِس کے علاوہ بھی بہت کچھ جس سے قوم آگاہ ہے۔