کرکٹ ٹیم کی شکست اور پاکستان کرکٹ بورڈ

اللہ پاک میرے ملک پر رحم فرمائے۔ جس طرف نگاہ ڈالیں زوال کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ہمارا شعبہ تعلیم تیزی سے زوال پذیر ہے۔ قومی معیشت برسوں سے زوال کا شکار ہے۔ پی۔آئی۔اے، ریڈیو پاکستان، پی۔ٹی۔وی، اسٹیل ملز، ریلوے سمیت درجنوں قومی ادارے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ ہماری اخلاقیات، سیاسی اور سماجی اقدار بھی زوال کا شکار ہیں۔ ہماری کرنسی، ہمارا پاسپورٹ، بھی بدترین حالت میں ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے ضمن میں ہماری عدلیہ بھی عالمی درجہ بندی میں کہیں آخری درجے میں کھڑی ہے۔ یقینا اس صورتحال کو ہی ہمہ گیر زوال کہا جاتا ہے۔ جب زوال کی یہ صورتحال ہر شعبے میں دکھائی دے گی تو کھیل کا شعبہ کس طرح مختلف ہو سکتا ہے؟ سو قومی کھیل ہاکی ہو، کرکٹ ہو، فٹ بال یا دیگر، ہمارے کھیل بھی زوال کا شکار ہیں۔ اس زوال کی ایک جھلک آپ کو کرکٹ کے ٹی۔ ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نظر آئی ہے۔ ہماری قوم کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک محبت رکھتی ہے۔ پاک، بھارت میچ کے دوران خواتین گھروں میں مصلے بچھا کر اور ہاتھوں میں تسبیاں پکڑ کر پاکستانی ٹیم کی جیت کیلئے دعائیں کرتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی محبت کا نتیجہ ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ ا قتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں بھی کھلاڑیوں کی پذیرائی اور عزت افزائی ہوتی رہتی ہے۔ اس قدر محبت اور عزت افزائی کے بعد قومی ٹیم بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو عوام الناس کا غم و غصہ بھی قابل جواز امر ہے۔

کھیل اور مقابلے کے متعلق بجا طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہار جیت سے زیادہ یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ آ پ نے مخالف ٹیم یا فرد کا مقابلہ کس جواں مردی اور بہادری سے کیا۔ وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ۔۔ میں زندگی کی جنگ میں ہارا ضرور ہوں۔۔۔ لیکن کسی مقام پر پسپا نہیں ہوا۔۔۔کھیل میں بدترین کارکردگی اور مقابلہ کے بغیر ہونے والی شکست کو پسپائی ہی سمجھیں۔

امریکہ کو پہلی بار دنیائے کرکٹ کی ٹیموں کی میزبانی کا موقع ملا۔ اس میزبانی کے طفیل ہی امریکہ کی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں کھیل سکی۔ سنتے ہیں کہ امریکی ٹیم میں شامل بیشتر کھلاڑی باقاعدہ کرکٹر نہیں ہیں۔ بہت سوں کا تعلق دیگر ملکوں اور علاقوں سے ہے۔ ٹیم میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جو کل وقتی نہیں، محض پارٹ ٹائم کھلاڑی ہیں۔ پاکستان کی اس وقت بے حد رسوائی ہوئی، جب پاکستانی ٹیم اس نومولود ٹیم سے ہار گئی۔ امریکیوں کی کرکٹ فہمی اور دلچسپی کا اندازہ کیجئے کہ جب امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو سے معمول کی بریفنگ کے دوران امریکی کرکٹ ٹیم کی جیت اور پاکستان کی ہار کے بارے میں سوال ہو ا تو اس نے جواب دینے سے معذرت کی۔ جوا ز پیش کیا اس کھیل کے حوالے سے اسے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔لہٰذا یہ سوال کسی ایکسپرٹ سے پوچھا جائے۔ دراصل امریکہ میں کرکٹ کا درجہ کھیلوں کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ ایک ایسے ملک کی ٹیم سے میچ ہار جانا واقعتا نہایت افسوس ناک بات ہے۔دوسرا میچ پاکستان نے بھارت کے خلاف کھیلا۔ آغاز اس قدر عمدہ تھا کہ قوم کو جیت کا یقین پیدا ہو گیا۔ لیکن پاکستان نے یہ جیتا ہوا میچ ہار کر دم لیا۔ ہماری ٹیم کینیڈا کی ٹیم سے جیت گئی، لیکن نتیجہ یہ رہا کہ پاکستان پہلے راونڈ میں ہی کھیل سے آوٹ ہو گیا۔

اس کے برعکس بنگلہ دیش کی ٹیم بھی کوارٹر فائنل میں پہنچی، جبکہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم سیمی فائنل میں جا پہنچی۔ اب پاکستا ن کی ٹیم کا مقابلہ اور موازنہ بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیموں سے کیا جا رہا ہے۔ ٹیم کو لعن طعن کی جا رہی ہے۔ایسی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو ہمارے پاکستانی کوچز نے تربیت دی تھی۔ یہ لوگ پاکستان میں مہاجرین کے طور پر آباد تھے۔ یہ پاکستانی کرکٹ اکیڈمیوں کی پیداوار ہیں۔ گلہ کیا جا رہا ہے کہ افغان ٹیم نے اچھی کاکردگی دکھانے کے بعد پاکستان کا نام نہیں لیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ قومی ائیر لائن پی۔آئی۔ اے کو بدترین حالت میں پہنچانے کے بعد، ہم امید یہ رکھیں کہ ایمریٹس ائیر لائن دنیا کو یہ بتاتی پھرے کہ اس نے پی۔ آئی۔ اے سے دو طیارے لیز پر لے کر اس ائیر لائن کو شروع کیا تھا۔ پاکستان کے ہوا بازوں اور انجینئروں نے ایمریٹس کے پائیلٹوں اور انجینئروں کی تربیت کی تھی۔ ایسی باتیں کرنے کے بجائے لازم ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنا احتساب کریں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ہر ادارہ سیاست کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ اس سیاسی کھیل اور سیاسی بھرتیوں کا نتیجہ ہے کہ ادارے تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ایک ہری بھری چراہ گاہ ہے۔ اس ادارے کی سربراہی حاصل کرنے کے لئے تگڑی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ بورڈ کے دیگر عہدے بھی سفارشوں اور تعلقات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ پی۔سی۔بی میں یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ کسی ادارے میں عہدوں کی بندر بانٹ اور اکھاڑ پچھاڑ معمول بن جائے، تو آپ اس سے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ بورڈ میں جاری اکھاڑ پچھاڑ اور عدم استحکام کا اثر لامحالہ ٹیم پر پڑتا ہے۔اس تناظر میں شکست کی تمام تر ذمہ داری ٹیم پر نہیں ڈال سکتے۔ سچ پوچھیے تو کرکٹ ٹیم سے ذیادہ کرکٹ بورڈ میں بیٹھے بڑے بڑے عہدیداران ٹیم کی ہار کے ذمہ دار ہیں۔ وجہ یہ کہ ٹیم سلیکشن، پالیسی سازی اور دیگر امور کے انہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔

یہ اطلاعات بھی آتی ہیں کہ کرکٹ ٹیم کسی ملک کا دورہ کرتی ہے تو غیر متعلقہ عہدیدار بھی اپنے عزیز و احباب کے ساتھ وفد میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سرکاری اخراجات پر سیر و سیاحت کی جاتی ہے۔ کاش کوئی سپورٹس جرنلسٹ، یا کوئی عام شہری ہی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت یہ معلومات حاصل کرئے کہ ٹی۔ ٹوئنٹی کے نام پر امریکہ کے اس تفریحی دور ے پر کتنے کروڑ اخراجات آئے؟۔ وفد میں کون کون شامل تھا؟۔ یہ لوگ کہاں قیام پذیر تھے؟۔ وغیرہ وغیرہ۔

آج کل کرکٹ بورڈ کی سربراہی وزیر داخلہ محسن نقوی کے پاس ہے۔ صحافتی اور عوامی حلقوں میں اکثر یہ بات ہدف تنقید بنائی جاتی ہے کہ وزارت داخلہ جیسے بڑے منصب کی موجودگی میں کرکٹ بورڈ کی سربراہی اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بھلا کیا تک ہے؟ وزارت داخلہ ایک نہایت اہم اور حساس وزارت ہے۔ یہ وزارت اپنے وزیر کی کامل توجہ کی متقاضی ہے۔ اسی طرح کرکٹ بورڈ کی ذمہ داریاں بھی تقاضا کرتی ہیں کہ اس کے سربراہ کی ساری توجہ کرکٹ کے امور کی طرف مبذول ہو۔ جب آپ اس ہی شخص کو دو الگ الگ اداروں کی ذمہ داریاں سونپیں گے تو اسکا نتیجہ یہی نکلے گا جو کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ کرکٹ کے ایکسپرٹس کے یہ تبصرے بھی سننے کو ملے کہ چیئرمین پی۔ سی۔ بی جب اپنے عہدے کا خیال رکھے بغیر ہر جگہ پہنچ جائے اور کھلاڑیوں کے ساتھ موجود رہے، تو اس کا تاثر بھی کچھ خاص اچھا نہیں رہتا۔ لڑکوں پر اس کا رعب بھی ختم ہو جاتا ہے۔

جب سے ٹیم کرکٹ ورلڈ کپ سے باہر ہوئی ہے۔ اس ہار کا سارا ملبہ اور عوام کا سارا نزلہ بیچاری کرکٹ ٹیم پر گر رہا ہے۔ بات ہو رہی ہے کہ ٹیم میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ساری کی ساری ٹیم ہی تبدیل کر دی جائے گی۔ بہتر ہے کہ اندھا دھند اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے بجائے، غیر جانبداری سے تنقیدی جائزہ لیا جائے کہ ٹیم کی ناقص کاکردگی کی وجوہات کیا ہیں۔ اس میں یقینا کھلاڑیوں کا بھی قصور ہے، ٹیم میں موجود گروہ بندی کا بھی، اور سفارشی بھرتیوں کا بھی۔ لازم ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بطور پیٹرن ان چیف کرکٹ بورڈ کے معاملات پر نگاہ کریں۔ صرف ٹیم میں تبدیلی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ میں جن بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔