”فاعتبرو یا اولی الاابصار۔۔“

کسی نے پوچھا، سخت وقت آزمائش ہے یا سزا، جواب تھا اگر سخت وقت تمہیں رب کی یاد دلائے، تم اپنی غلطیوں اورگناہوں پر شرمسار ہو جاؤ تو یہ آزمائش تھی لیکن اگر یہ سخت وقت تمہیں اپنی غلطیوں اور گناہوں پر پختہ کر دے تو یہ تمہارے لئے دنیا میں ہی سزا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اس وقت سخت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے قوانین میں شائد ہی کوئی ایسا جرم ہو گا جس کے مرتکب وہ قرار نہیں پا رہے۔ ان پر سیاسی الزامات ہیں کہ انہوں نے ریاست سے بغاوت کی، اپنی ہی ملک کی فوج پر حملے کئے۔ ان پرمعاشی الزامات ہیں کہ انہوں نے انڈیا، اسرائیل جیسے دشمن ممالک سے فنڈنگ لی، توشہ خانہ لوٹا۔ ان پر اخلاقی الزامات ہیں جو بہت سارے امریکی عدالت کے فیصلوں سے ان کی سابق اہلیہ کی کتاب کے مندرجات میں موجود ہیں اور تازہ ترین غیر شرعی نکاح کیس ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد سے بشریٰ بی بی اور عمران خان کی سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ اگر مقدمے کا منطقی، غیر جذباتی، اخلاقی اور قانونی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اور رہنما غیر ضروری طور پر رہائی کی امید لگا رہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ملنے والے پے در پے ریلیفوں کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اس کا اسی طرح اثر لے گی جس طرح ثاقب نثار کے دور میں ماتحت عدالتیں لیا کرتی تھیں اور اگر کہیں شک و شبہ ہوتا تھا تو وہاں مانیٹرنگ جج لگا دیا جاتا تھا۔دس صفحات پر مشتمل فیصلہ قانونی دلائل سے مزین ہے کہ دونوں ملزمان (یا مجرمان) کے پاس سزا معطلی یا ضمانت کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ بھی کہ بشریٰ بی بی کا خاتون ہونا بھی سزامعطلی اور ضمانت پر رہائی کا جواز نہیں۔ فیصلے میں پاکستان کریمنل لا جرنل میں موجود محمد ریاض بنام سرکار کیس کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق ضمانت انڈر ٹرائل ملزم کا حق ہے، سزایافتہ مجرم کا نہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ایسی درخواستوں میں کیس کے میرٹس او ر ڈی میرٹس پر بات نہیں کی جا سکتی اور درخواست مسترد کرتے ہوئے بنیادی نکتہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نہ تو یہ سزا قلیل مدتی ہے (کہ تین سال کی سز ا کو بالعموم معطل کرنے کی روایت ہے) اور نہ ہی سزا یافتہ مجرمان سزا کا بیشتر حصہ (یعنی سات میں سے کم از کم ساڑھے تین برس) کاٹ چکے ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی کے وکلا کی اہلیت پر اکثر حیرت ہوتی ہے اور خاص طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے مختلف مقدمات کو لائیو دکھانے کے اقدام کے بعد ان کی قابلیت کھل کے سامنے آ گئی ہے۔ مجھے بڑے بڑے ناموں سے بصد احترام کہنا ہے کہ آپ کروڑوں روپے فیسیں لیتے ہیں مگر عملی طور پر آپ کے دلائل معیار میں پی ٹی آئی کے تھڑے پر بیٹھے ہوئے کارکنوں کی گفتگو سے بہتر نہیں ہوتے۔ میں نے ان مقدمات میں گپ شپ کرتے ہوئے ا ن بڑے بڑے ناموں سے زیادہ اشٹام فروشوں کو وزنی بحث کرتے، بامقصد دلائل دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اوپر ایسے مقدمات کی قانونی پوزیشن بیان کر دی تو کیا ان سب کو یہ پوزیشن معلوم نہیں تھی۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ انہوں نے روایتی وکیل کی طرح دلاسے دئیے جو مجرم کو پھٹے پر چڑھنے تک یقین دلاتا رہتا ہے کہ ابھی وہ ایسی قانونی جادوگری کرے گا کہ جج اسے سزا دینے کی بجائے خود گھر چھوڑنے کے لئے جائے گا۔ کئی وکلاء صاحبان نے اپنے سوشل میڈیا چینل بنا لئے ہیں اور وہاں وہ تمام باتیں بولتے ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی یوٹیوبر اپنے فالوررز کو بے وقوف بنا سکتا ہے، اس کے ذریعے ڈالر کما سکتا ہے۔ ان کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ زنا کے الزامات مدعی اور گواہ کے بیان کا حصہ نہیں تھے جو جرح میں شامل کروا دیئے گئے۔
یہ ایک اور پیچیدہ صورتحال ہے کہ عمران خان کے تمام مقدمات کو سیاسی انداز میں لڑا جا رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر کا یہ بیان پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لئے تو شاندار ہو سکتا ہے کہ اس مقدمے کے سیاسی مقاصد ہیں مگر قانون کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قانون سویپنگ سٹیٹمنس کی بجائے حقائق کو دیکھتا ہے۔ پی ٹی آئی ایک دوسری غلطی یہ کر رہی ہے کہ عزم استحکام سمیت دیگر قومیمعاملات کو ایسے کیسز کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ مجھے یاد کروانے دیجئے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا مقدمہ بھی سیاسی بنا کے لڑا گیا تھا جبکہ اسے قانونی اور فوجداری بنیادوں پرلڑا جاتا تو وہ فیصلہ آ ہی نہیں سکتا تھا جو اس وقت کے ججوں نے دیا تھا۔ اسے کون جھٹلا سکتا ہے کہ اس مقدمے میں عمران خان کے مخالف نہ کوئی اسٹیبلشمنٹ کا عہدیدار ہے نہ ہی کوئی حکومتی رہنما یا سیاسی مخالف۔اس مقدمے کا مدعی خاور مانیکا نامی شخص ہے جو سابق وزیراعظم کی اہلیہ کا پہلا شوہر اور اس کے کئی بچوں کا باپ ہے۔ اس کے گواہان میں بھی کوئی سیاسی رہنما نہیں بطور سیاسی رہنما نہیں، پہلا لطیف ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور وہ ان کا ملازم ہے۔ اس کی گواہی اپنی موجودگی کو ثابت کرتے ہوئے سب سے اہم ہے۔ مفتی سعید بطور نکاح خواں ہوں یا عون چوہدری بطور گواہ، وہ بطور سیاستدان نہیں بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہیں لہذا اس مقدمے کو سیاسی بنانا صرف اور صرف اپنے کارکنوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔یہ نکتہ بھی غور کرنے کے قابل ہیں کہ مزاحمتی سیاست کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو، آصف زرداری اور نواز شریف تک بالترتیب پھانسی چڑھ گئے، گیارہ گیارہ برس قید رہے، نااہل اور پابند سلاسل ہوئے مگر ان میں سے کسی پر بھی ایسے گندے، گھٹیا اور غلیظ الزامات نہیں لگے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس میں سیاسی رہنما کا ذاتی کردار کیسا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ سیاستدان تو سیاستدان کوئی جج، جرنیل، بیوروکریٹ، صحافی اور تاجر تک اس وقت تک اچھا نہیں ہو سکتا جب تک وہ ذاتی طور پر اپنے کردار میں اچھا نہ ہو۔

خانصاحب اس وقت مشکلات کا شکار ہیں مگر اس کے باوجود وہ سیاسی حکمرانوں سے بات چیت کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ میں پورے وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ مقتدر حلقے اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر آٹھ سو چار سے گفتگو کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ ’عزم استحکام‘ کی کامیابی کے لئے بھی اس بلیک میلنگ میں آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کا پیغام ہے جو بھی راستہ نکلے گا وہ پارلیمنٹ سے نکلے گا۔ فوج سیاستدانوں سے براہ راست رابطے نہیں کرنا چاہتی تو اس کی تعریف کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے آئینی کردار کی طرف لوٹ آئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، میرا مشورہ یہی ہے کہ عمران خان صاحب کو اس وقت اللہ توبہ کرنی چاہئے، اکڑ اور تکبر کی اس روش کو اختیار نہیں کرنا چاہئے جس کی وجہ سے ابلیس راندہ درگاہ ہوا۔