اپنے پاؤں پر کلہاڑی

کہا جاتا ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں شمالی بالخصوص گلگت، سکردو، چترال کے علا قہ جات میں غیر ملکی سیاح جوق در جوق آیا کرتے تھے،یہ وہ عہد تھا جب ہوٹل مالکان، ویٹر بھی مقامی گاہک کو گھاس نہیں ڈالتے تھے، وجہ یہ تھی کہ سیاح تمام تر ادائیگی ڈالر میں کرتے تھے،سیرو سیاحت کا عروج اس لئے بھی تھاکہ ہر طرف امن ہی امن تھا، میزبان بھی ایسے سیاحوں کے لئے آنکھیں فرش راہ کئے ہوتے تھے۔

قدرتی مناظر اور پہاڑ دیکھنا ہر سیاح کی دیرینہ خواہش ہے، اس مقصد کے لئے وہ حضر اور سفر میں بھی بخوشی مشقت کرتا اوران مناظر کو کیمرے کی مدد سے محفوظ کرتا ہے۔

لکھاری سیاح اپنی داستان ”سفر نامہ“ کی صورت میں لکھ کر دیگر کو سیرو سیاحت کی ترغیب دیتے ہیں،انھیں معلومات فراہم کرتے اورمسائل کی نشاندہی بھی کر تے ہیں،ارض وطن کو اللہ تعالیٰ نے جہاں سارے موسم دیئے ہیں وہاں قدرتی مناظر کی بھی کمی نہیں ہے، وادی سندھ کی تہذیب، بدھ مت کے آثار قدیمہ، مغل تعمیرات، سکھ، ہندو برادری کے مذہبی اور تاریخی مقامات، پولو کا کھیل، برف پوش پہاڑ، قدرتی جھیلیں، ریگستان، میدانی، ساحلی علاقہ جات کیا کیا نعمتیں عطا ہوئی ہیں، ریاست اس براعظم میں واقع ہے جہاں دنیا کی دوتہائی آبادی پائی جاتی ہے، اگر چین اور ہندوستان جیسے ممالک بیس ملین ڈالر سے زیادہ سیاحت کے شعبہ میں کما سکتے ہیں تو ہماری سرزمین میں کمی کس چیز کی ہے۔

اس کا سیدھا جواب تو سوات میں ہونے والے واقعہ میں پوشیدہ ہے، جہاں سیالکوٹ کے ایک رہائشی کو توہین مذہب کے نام پر تشدد سے مار کر جلا دیا گیا،اس سے بڑی سفاکی کیا ہوگی، بربریت کے نام پر یہ پیغام ہر اس شہری کو دیا جارہا ہے جو شمالی علاقہ جات دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے اس کو اگرسیرو تفریح کے لئے آنا ہے تو اسے مقامی افراد کی منشاء کے مطابق سیر کرنا ہوگی، کسی بھی قسم کے اظہار رائے سے قبل اسے سوچنا ہو گا، ورنہ انجام اس کے سامنے ہے۔

راقم کو یاد ہے کہ مارچ 1985 میں بحیثیت طالب علم کالج کے تفریحی اور مطالعاتی پندرہ روزہ دورے پر روانہ ہوا اس وقت جہاد افغانستان عروج تھا، مگر حالات سرکار کے مکمل کنٹرول میں تھے۔مری اسلام آباد،سوات، مدین، کلام، سید و شریف، مرغزار دیگر تفریحی مقامات کی سیر اور قیام گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاورکے ہاسٹل میں تھا، اس دوران کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا، پنجاب کے طلبا کو مسکراتے چہرو ں سے خوش آمدید کہا گیا، نہ تو کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا خوف نہ ہی کوئی علاقہ نو گو ایریا تھا، طلبا نے حیات آباد کی مارکیٹ سے شاپنگ بھی کی تھی، افغانیوں بڑی تعداد پشاور شہر میں روٹی روزی کمانے میں مصروف تھی۔

اب یہ عالم ہے کہ سکیورٹی کے نام پر ایک صوبے کے طالب علم دوسرے صوبہ کے تاریخی، تفریحی مقامات دیکھنے سے قاصر ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے۔

ایک تو عالمی طاقتوں کی پالیسیوں نے ہماری سیاحت کا بیڑا غرق کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے دوسرا ہماری سنجیدگی بھی واجبی سی ہے، تیسرا رہی سہی کسر ہم اپنے رویوں نے پوری کر دی ہے، تازہ مثال سانحہ سوات کی ہے،اس علاقہ کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ انھوں سے نائن الیون کے بعد بھاری قیمت فوجی آپریشن کی صورت میں ادا کی ہے، انھیں ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا، انکی فصل برباد ہوگئی، اب یہاں امن قائم ہوا ہے مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوا ہے تو ایک مجمع نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سیاحت کا دروازہ بند کرنے کی بڑی حماقت کی ہے۔ آج کا دور سوشل میڈیا کا ہے،اس واقعہ سے جہاں ملک کی جگ ہنسائی ہوئی وہاں تارکین وطن تک یہ پیغام بھی گیا ہے کہ وہ اپنی فیملی کو سوچ سمجھ کر سوات کے علاقہ میں بھیجیں گے۔

اہل سوات یاد رکھیں کہ مری میں چند سیاحوں کے ساتھ جب بدتمیزی کی گئی، عوامی سطح پر ان کے خلاف تحریک چلی تو مری کے تاجروں، ہوٹل مالکان اور باشندوں کے ہوش ٹھکانے آگئے بعد ازاں وہ اپنی وڈیوز میں سیاحوں سے معذرت کرتے پائے گئے۔

سری لنکن ٹیم پر حملہ، نائن الیون، مختلف آپریشن نے غیر ملکی سیاحوں کی آمد کے سلسلہ کو قریباً ختم ہی کردیا ہے،اس پر سرکار کو بھی کوئی فکر لاحق نہیں ہے،ایک وقت تھا جب غیر ملکی سیاحوں کے لئے ہماری سرزمین بہت پسندیدہ ہوتی تھی۔ بڑے ممالک کی طرف سے اس پر قدم نہ رکھنے کا ا نتباہ جاری کیا جانا قابل توجہ ہے۔ پتریاٹہ اور ایوبیہ کے مقامات پر لفٹ چیئر کی بندش سے بھی سیاح مایوس لوٹ رہے ہیں۔ جن ممالک سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں، ان میں بڑی آبادی سیاحت کا ذوق رکھتی ہے، اس لئے لازم ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہو، سیاحوں کے لئے تمام تر سہولیات ہوں، انھیں چلنے پھرنے کی آزادی ہو، ان کو فراہم کی جانے والی ٹرنسپورٹ معیاری ہو، ہوٹلنگ، قیام و طعام بھی اعلیٰ قسم کا ہو، میزبان شائستہ، بااخلاق ہوں، انکے گائیڈ تعلیم یافتہ ہوں، کسی بھی قسم کی دونمبری نہ ہو،تب ہم ٹورازم سے بھاری بھر فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اگر مقامی افراد اپنے ہم وطنوں کی ہی زندگی کے در پے ہوں تو پھر غیر ملکی سیاح کیوں کر یہاں کا رخ کرے گا۔

شمالی یا میدانی علاقہ جات ہوں ٹورازم کے اعتبار سے اس میں خاصی وسعت پائی جاتی ہے،بطور خاص مذہبی ٹورازم کی بڑی اہمیت کی حامل ہے اقلیت کے گھروں پر توہین مذہب کے نام پر بلوائیوں کے حملے ہوں تو کس کا دل چاہے گا کہ وہ اس دھرتی پر قدم رکھے،جو کچھ سوات، سرگودھا، سیالکوٹ اور جڑانوالہ میں ہوا،اس کی نہ تو کوئی مذہب اجازت دیتا ہے نہ ہی یہ خدمت اسلام ہے۔

موسم گرما کی تعطیلات میں ملک بھر سے لوگ شمالی اور قبائلی علاقوں کی طرف سیر کرنے جاتے ہیں،ا مسال اسی موسم میں وادی نیلم میں ملتان کے دو خاندان حادثات کی نذر ہوگئے،راقم کو بھی اس وادی میں جانے کا اتفاق ہوا ہے، حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے اہل خانہ کے ساتھ روابط میں بڑی دشواری ہوتی ہے دوسرا سیاحوں کی راہنمائی کا سرکاری طور پر کوئی اہتمام یا ہیلپنگ ڈیسک نہیں ہوتا، غیر معیاری ٹرانسپورٹ، لا ابالی ڈرائیور بھی حادثات کی اہم وجہ ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال سیاحت کے لئے نکلتے ہیں، شمالی علاقہ جات کے مکینوں کے روزگار کا یہی بڑا ذریعہ ہے، لیکن ان کی جانب سے بد سلوکی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے سرکار کابھی نت نئے ملٹری آپریشن کا عندیہ ہل من مزید کی کیفیت ہے جس کو بد انتظامی اور نااہلی کے علاوہ دوسرا کیا نام دیا جائے۔

سیاحوں کا ہر سطح پر اعتماد بحال کرنے اور انھیں سہولیات دینے کے لئے عوامی نمائندگان اور سرکاری مشینری کوسیاحتی موسم میں بہر حال متحرک رہنا چاہئے۔