بھاررت اور افغانستان سے نیا مطالبہ

کینیا ایک غریب ملک ہے، اس کا تصور کرتے ہی ذہن میں سیاہ جلد، دبلے جسم، پچکے ہوئے رخسار اور کمر سے لگے پیٹوں والے حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا حکمران طبقہ بے حد امیر اور عام آدمی بے حد غریب ہے۔ کینیا کے لوگ سخت جان ہیں، ان کی پہچان ان کے ایتھلیٹس ہیں جو عالمی میراتھن میں شرکت کرتے ہیں اور عموماً بہترین پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ کینیا کے کینو اور کلارک دو ایسے ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے کینیا کا پرچم بلند کیا۔ کینیا کی دوسری پہچان ان کی گنے کی فصل ہے۔ اہل پاکستان اور کینیا کا فقط اتنا ہی رشتہ ہے کہ ہمارے بعض سیاست دانوں نے چینی بیچ کر دنیا بھر کا چین خریدا تو ان کی نظر کینیا پر پڑی پھر انہوں نے کینیا میں بھی شوگر ملیں لگائیں۔ اب پاکستان کی طرح کینیا میں بھی شوگر مافیا کینیا کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے، لوٹ میں کینیا سرکار کو وافر حصہ ملتا ہے۔ کینیا میں کرپشن بے تحاشا ہے، رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، وہاں بھی یہی کلچر ہے، آئے ہو تو کیا لائے ہو، جاؤ گے تو کیا دے کر جاؤ گے۔ ہمارے یہاں فرنٹ مین اور فرنٹ وومن کے ذریعے کام ہوتے ہیں جبکہ کینیا میں براہ راست تعلق استوار کرنا مناسب خیال کیا جاتا ہے، کینیا میں مال اوپر سے نیچے آتا ہے۔ پاکستان میں نیچے سے اوپر، اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہر طرف جاتا ہے۔ ہم ترقی پذیر ملک ہیں۔ کینیا میں ابھی کسی نے ترقی کا خواب نہیں دیکھا نہ ہی کسی نے کینیا کو لندن یا پیرس بنانے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ کینیا میں کرپشن بڑی گیم ہے لیکن گیم چینجر نام کا کوئی دھوکہ وجود نہیں رکھتا۔ انسانوں کو بھیڑ بکریاں سمجھا جائے تو کینیا کے عوام بہت خوش ہوں گے، انہیں حکمران طبقہ کتا سمجھتا ہے سہولتوں کے نام بس اتنی ہی ہڈی ڈالتا ہے جتنا کتے کا حق سمجھا جاتا ہے۔ تمام حقوق اشرافیہ کے اور تمام سہولتیں اشرافیہ کے گماشتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ غلامی ختم ہونے کے بعد بھی غلامی سے محبت اور اس محبت کی یادگار کے طور پر ٹیکس در ٹیکس کا نظام جاری رکھا گیا۔ عرصہ دراز سے کینیا کے عوام کا زندگی کے بارے میں رویہ دیکھیں تو وہ پاکستانیوں کے پیٹی بھائی لگتے ہیں لیکن گزشتہ ماہ انہوں نے یہ واحد رشتہ توڑ لیا ہے۔ انہوں نے سال ہا سال سے خود پر طاری نیم بے ہوشی ختم کر دی ہے۔ کہا جا سکتا ہے انہوں نے ہوش کے ناخن لے لئے ہیں۔ کینیا میں گزشتہ ماہ بجٹ پیش کیا گیا جس میں حکومت کی طرف سے کسی وعدے کا پاس نہ رکھا گیا اور ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا۔ پٹرول، گیس، بجلی کے بل کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، رئیل اسٹیٹ، کھاد زرعی ادویات، خدمات کی فراہمی، برقی و زرعی آلات، کپڑے جوتے کتابیں سٹیشنری غرضیکہ عام آدمی کے استعمال کی کوئی شے ایسی نہ تھی جس کے ٹیکس میں اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ بس ایک رعایت کی گئی سورج کی روشنی اور سانس لینے کیلئے ضروری ہوا پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ بجٹ ایوان میں پیش ہوا تو کینیا میں اپوزیشن نے اس کی بھرپور مخالفت کی پھر اچانک ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا فیصلہ ہوا اور بجٹ پاس کر دیا جس کے بعد، ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مرد خواتین بوڑھے بچے سڑکوں پر آ گئے، احتجاجی جلسوں کے بجائے براہ راست، احتجاج کا فیصلہ ہوا تو حکومت نے اس احتجاج کو کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ انتظامیہ نے حکمرانوں کو یقین دلایا کہ ”سرجی گل ای کوئی نئیں“ پولیس نے نصف شب گھروں پر چھاپے مارے گرفتاریاں کیں۔ عورتوں اور مردوں کے ساتھ ساتھ کم سن بچوں کو بھی بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور پولیس گاڑیوں میں اٹھا اٹھا کر پھینکا گیا۔ ریلیوں پر واٹر کینن سے گرم پانی برسایا گیا۔ ربڑ کی گولیوں کی جگہ جسموں سے پار ہو جانے والی گولیاں چلائی گئیں۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کے جرم میں بغاوت کے مقدمات بنائے گئے، لیکن ظلم کے تمام ضابطوں کے اطلاق کے باوجود احتجاج کا سیل رواں بڑھتا گیا۔ ملک گیر ہڑتالیں ہوئیں، سرکاری املاک اور دفاتر کو آگ لگا دی گئی، سرکاری افسروں اور اہلکاروں نے چہروں پر ماسک چڑھا کر عوام کی نظروں سے بچنے کی کوششیں کی لیکن عوام نے سو پردوں کے باوجود انہیں ڈھونڈ نکالا اور کیفر کردار تک، بلامعاوضہ ہی پہنچا دیا۔ تین روز کے دوران مہنگائی اور ٹیکسوں پر احتجاج کرنے والوں پر بے پناہ تشدد کے نتیجے میں 30افراد جاں بحق ہو گئے۔ جاں بحق افراد کی لاشیں بہ حق سرکار ضبط کرنے پر ملک کے کونے کونے میں آگ بھڑک اٹھی جس پر حکومت کو خیال آیا کہ ”گل ودھ گئی اے“ اس امر کا احساس ہوتے ہی کینیا کے صدر نے ”منی بل“ واپس لے لیا ہے۔ انہوں نے قوم سے معذرت کی ہے اور ریلیف کا وعدہ کیا ہے۔ حکومتی ترجمانوں نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ تیاری میں انہیں ورغلایا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے وہاں حکمران طبقہ کتنا معصوم ہے اور کتنی جلدی ورغلانے میں آ جاتا ہے۔ پاکستانی کاروباری طبقے کو شاید ان کی یہی ادا پسند آئی ہے کہ وہ باآسانی ورغلائے جا سکتے ہیں لہٰذا اب ان کا رخ لندن اور دوبئی کے بعد کینیا کی طرف ہو گیا ہے، اب ہم انہیں سمجھائیں گے گیم چینجر کیا ہوتا ہے۔

کینیا کے عوام کے ردعمل پر مجھے بے حد افسوس ہے۔ انہوں نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ اس کی بڑی وجہ شاید ان کی اس کہانی سے لاعلمی ہے جو اہل پاکستان نے حفظ کر رکھی ہے اور اس پر گزشتہ پچاس برس سے عمل پیرا ہیں۔ کہانی کے مطابق ایک بادشاہ اس بات پر بہت حیران تھا کہ اس کے ہر ظلم پر رعایا خاموش رہتی ہے وہ جو بھی نیا ٹیکس لگائے اس پر کوئی احتجاج نہیں کرتا لہٰذا اس نے حکم دیا کہ کل صبح سے ہر شخص کو کام کاج پر پہنچنے سے قبل دس دس چھتر مارے جائیں۔ بادشاہ نے اپنے حکم پر عملدرآمد کے بارے میں رپورٹ طلب کی جس میں بتایا گیا کہ عوام نے ملک کے وسیع تر مفاد میں روزانہ چھتر کھانا قبول کر لیا ہے لیکن صرف ایک رعایت طلب کی ہے۔ وہ کہتے ہیں چھتر مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ چھترکاری کی لائن میں لگنے سے ان کا بہت قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہوتا ہے، دنیا جانتی ہے ہم زندہ قوم ہیں، ہم بھارت اور افغانستان سے یہی مطالبہ کرنے والے ہیں کہ ہمارا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے۔