بدترین جمہوریت آمریت سے پھر بھی بہتر

آج ملک جس نہج پر ہے اس کی بنیادی وجہ ملک میں بار بار لگنے والے مارشل لاء ہیں۔ ایوب خان اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” میں لکھتے ہیں کہ وہ امریکہ سے ملک واپس آ رہے تھے کہ ان کے ذہن میں آیا کہ وطنِ عزیز میں ون یونٹ کا تجربہ کیا جائے۔ یہ اس وقت کی بات ہے وہ ابھی پاور میں نہیں تھے صرف امریکہ میں اپنے اقتدار کے حوالے سے معاملات طے کر کے آ رہے تھے۔ یعنی آمریت کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ فردِ واحد نے فیصلہ کرنا ہو تا ہے رات کو سوتے میں اسے کوئی خواب بھی آ جائے تو وہ صبح اس پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ ایک تو جمہوریت میں تمام فیصلے عوامی شمولیت کے ساتھ کثرتِ رائے سے کئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر جمہوری عمل جاری رہے تو سیاستدانوں کو بار بار عوامی کی عدالت میں جانا پڑتا ہے۔ اس خوف سے کہ عوام کہیں انہیں انتخابات میں مسترد نہ کر دیں وہ اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کا سب سے اچھا احتساب عوام کرتے ہیں۔

جمہوریت میں آئین کی بالادستی مسلم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے آئین نہیں بناتے بلکہ آئین سے ادارے وجود میں آتے ہیں۔ آئین کے ذریعے مختلف اداروں کی حیثیت اور اختیارات کا تعین کر دیا جاتا ہے، جس سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ آئین ہی ایک ایسی دستاویز ہے جس پر عملدرآمد سے تمام اکائیاں متحد رہتی ہیں اور آپ کے اختلافات کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ آئین کی عدم موجودگی یا اس کے معطل ہونے سے انتشار جنم لیتا ہے۔ فوجی حکومتیں یا اگر پس منظر سے عسکری عناصر معاملات کو ہینڈل کر رہے ہوں تو آئین پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا جس سے اداروں کے درمیان توازن درہم برہم ہو جاتا ہے اور ملک رفتہ بحرانوں کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ آج وطنِ عزیز کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ملک میں چار ڈائریکٹ مارشل لاء لگ چکے ہیں، پہلا مارشل لاء 27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے نافذ کیا اور اقتدار پر جبری قبضہ جما لیا۔ ایوب خان نے دو عہدے اپنے پاس رکھنے کے بجائے جنرل موسیٰ کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا اور موقع ملتے ہی خود فیلڈ مارشل کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ جنرل موسیٰ ایوب خان کے زیرِ سایہ ساڑھے سات سال تک فوجی سربراہ رہے۔ دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان ساڑھے پانچ سال کمانڈر انچیف رہے۔ ڈھاکہ نہ ڈوبتا تو ان کی وردی اتروانے میں جانے کتنے برس اور لگ جاتے۔ تیسرے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق یکم مارچ 1976ء سے 17 اگست 1988ء تک تقریباً ساڑھے بارہ سال فوج کے سربراہ رہے۔ چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف تقریباً نو سال تک بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے سنگھاسن پر آلتی پالتی مارے بیٹھے رہے۔ یہ چاروں جرنیل 33 سال تک نہ صرف سیاسی حکمرانی پر قابض رہے بلکہ انہوں نے 35 سال تک فوج پر بھی تسلط جمائے رکھا۔ ایک طرف وہ ملک وقوم کی ہمہ جہت ترقی اور نشوونما کی راہیں کھوٹی کرتے رہے اور ساتھ ساتھ فوج کی پیشہ ورانہ ترقی اور ساکھ پر کاری ضرب لگاتے رہے۔ انہوں نے نہ صرف توانا اور پر عزم سیاسی و جمہوری قیادت نہ ابھرنے دی بلکہ افکارِ نو سے آراستہ با صلاحیت فوجی لیڈر شپ کو بھی نشو ونما پانے کا موقع نہ دیا۔ اپنے اقتدار کو تقویت دینے کے لئے اپنی ذات کو کو ہی سب کچھ جانا اور وفاداروں کی فہرست مرتب کرتے رہے۔ اس طرح اہلیت اور صلاحیت کہیں دور رہ گئی۔

چار فوجی ڈکٹیٹر تقریباً 35 سال تک اور پس منظر سے تقریباً 70 سال سے فوج کا عمل دخل جاری ہے۔ اس حوالے ایک اور سوال بڑا اہم ہے کہ کیا یہ فوجی حکمران اور پس منظر سے مداخلت پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کر سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا، دستاویزی معیشت سکڑتی رہی اور غیر قانونی معیشت کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔ جس کا نتیجہ ہمیں ڈھاکہ فال کی صورت میں پیش آیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر پاکستان کی موجودہ اور آئندہ نسلیں قربان کر دی گئیں۔ ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا۔ دنیا میں پاکستان کی ساکھ ختم ہو گئی۔ آج یہ صورتحال ہے کہ عالمی برادری ہمارے کسی عمل اور بات پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ملک میں کرپشن، لوٹ مار، مہنگائی، بیروزگاری اور چور بازاری کا بازار گرم ہے۔ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی شرائط اور مشورے پر چلایا جا رہا ہے جس کا اعتراف وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔جس کے بھیانک اثرات غربت اور مہنگائی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہیں۔

ہمارے ہاں قانون کی بالادستی، آئین کی حکمرانی اور جمہور کی فرمانروائی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر قومی اداروں کی نشوونما اور جمہوریت کے ارتقا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اس کے برے اثرات کو قوم بھگت چکی ہے اور کچھ آج بھگت رہی ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آئینی نظام کو اتنے دھچکے نہ لگتے تو یقیناً ہم اتنے برے حالات میں نہ ہوتے جتنے برے حالات کے ہم شکار ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ ہوسِ اقتدار پاکستان کو دو لخت کر گئی۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہر اہلکار خواہ وہ عسکری ہے یا سول اسے ریٹائر منٹ کی عمر پر اپنا عہدہ چھوڑنا ہو گا۔ دیگر اہلکاروں کو سربراہی کا اعزاز ملنا چاہئے تا کہ وہ نئی سوچ، نئے جذبے اور نئی قوتِ عمل کے ساتھ اپنے اپنے اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو جلا دیں اور اس طرح اداروں کے چہرے نکھرتے رہیں گے اور کئی دوسرے افسروں کو بھی ترقی کا موقع ملتا رہے گا ہر چھوٹے افسر کے دل میں محنت کی لگن پیدا ہو گی۔ وہ دل و جان اور ایمانداری سے ملکی ترقی خواہاں ہو گا۔