آپریشن عزم استحکام اور پارلیمان

جس اجلاس میں آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی اُس میں وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور موجود تھے مگر دورانِ منظوری اُنھوں نے نہ تو مخالفت کی اور نہ ہی کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا اِس لیے اچانک پی ٹی آئی کی طرف سے مخالفت شروع کردینا ناقابلِ فہم ہے اب تو اُسے اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام ف کی حمایت مل گئی ہے جس سے پارلیمان تقسیم ہونے کا تاثر گہرا ہونے کے ساتھ پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہوگئی ہے کیونکہ کے پی کے کی تمام بڑی جماعتیں اِس آپریشن کے خلاف متحد نظر آنے لگی ہیں ایسے حالات کیوں بنے؟ اِس سے حزبِ اقتدار کو اِس بنا پر بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ چاہے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں منتخب عوامی نمائندوں اور عسکری قیادت نے غوروخوض کے بعد ہی آپریشن عزم استحکام کا علان کیا ہے لیکن ملک کی سیاسی فضا کے تناظر میں بہتریہ تھا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف دیگر مصروفیات سے وقت نکال کر پارلیمانی جماعتوں کی قیادت سے ملتے اورپھر مذکورہ آپریشن کا اعلان پارلیمنٹ میں کیا جاتا ایسا ہونے سے نہ صرف منتخب سیاسی قیادت کی تائید وحمایت حاصل ہوتی بلکہ دنیا بھر کو یہ پیغام جاتاکہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے اور خطے کے امن و استحکام میں اپنااہم کردار ادا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے اور دہشت گردی جیسے ناسورکے سدِ باب کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات اُٹھانے اور دستیاب تمام و سائل سے کام لینے کے لیے پُرعزم ہے لیکن حکومت نے کریڈٹ لینے اور عسکری قیادت کواپنی تابعداری کایقین دلانے کے چکر میں بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں دیا بلکہ جلدبازی میں باعثِ سہولت بننے کی بجائے پارلیمان اور رائے عامہ کی تقسیم کا باعث بن گئی ہے جس سے پی ٹی آئی کو یہ کہنے کا موقعہ ملا ہے کہ اگر آپریشن ناگزیر ہے توپارلیمان کو اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا؟ اور زیادہ تر فیصلے پارلیمان سے باہر کیے جارہے ہیں یہ طرزِ عمل منتخب اِدارے کو بے وقعت بنانے کے مترادف ہے یہ موقف اگر مکمل طور پر درست نہیں تو غلط بھی نہیں پاکستان کاماضی شاہدہے کہ پارلیمان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیے جانے والے فیصلے کبھی عوامی تائیدوحمایت حاصل نہیں کر سکے لیکن اِس بات کوموجودہ حکومت سمجھنے سے نہ جانے کیوں قاصر ہے؟۔

جہاں تک پی ٹی آئی کے تحفظات کی بات ہے تو یہ بات عیاں ہے کہ اُس نے بحثیت جماعت فیصلہ کر لیا ہے چاہے درست ہو یاغلط، ہرحکومتی فیصلے اور اقدام کی مخالفت کرنی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کسی طرح بھی حکومت کو سنبھلنے کا موقعہ نہیں دینا چاہتی مبادا عوام دوست اقدامات سے مقبولیت حاصل کر لے دوم پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت اُس کے پاس ہے اور مذکورہ آپریشن صوبائی حکومت کے اختیارات محدودکر سکتا ہے یہ سوچ کے پی کے جیسے حساس اور بدامنی کے شکار صوبے کومرکز کے لیے مزید ہی خطرناک بنا سکتی ہے گزشتہ چند ماہ سے صوبائی حکومت مسلسل مرکز گریز اقدامات کی روش پر گامزن ہے بجلی بحالی کی بات ہو یا پھر وسائل میں سے حصے کا مطالبہ، صوبائی حکومت ایسا تاثر دے رہی ہے جیسے مرکز صوبوں کے حقوق سلب کر رہا ہے یہ تاثر قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہے لیکن پی ٹی آئی قیادت کو اِس زہر ناکی کا احساس تک نہیں اور وہ نمبر بنانے کے لیے آگ سے کھیل رہی ہے اب تو صوبائی حقوق کے لیے نوبت مظاہروں تک جاپہنچی ہے بجلی بحالی کے نام پر وزیرِ اعلیٰ اور دیگر صوبائی قیادت کا گرڈ اسٹیشن پہنچ جانا اور بزور بجلی بحال کرنے جیسے کام عوامی مشکلات دور کرنے کے لیے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے لیے مسائل بڑھانے کی بناپر کیے جارہے ہیں جس کی تائید نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب ملک اور عوام کی بات ہو توسیاسی مفاد بالائے طاق رکھنا ہی حب الوطنی ہے وائے افسوس کہ وطنِ عزیز میں ایسا سوچنے کی بجائے مسائل کا موجب بننا اور زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اُٹھانے کا رواج پختہ ہو چکا ہے۔

پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ آپریشن عزمِ استحکام سے عسکری قیادت مدتِ ملازمت میں توسیع لے سکتی ہے بلاشبہ ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے اُسے خدشہ ہے کہ اگر موجودہ عسکری قیادت مزید عرصہ رہی تو اُس کا مستقبل تاریک ہونا یقینی ہے اسی لیے آپریشن عزمِ استحکام پر تنقید کرتے ہوئے حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی مخالفت کی جارہی ہے کرم ایجنسی میں اہلکاروں کے خلاف عوام کو بڑھکانے اور دھاوا بولنے میں یہی سوچ کارفرما ہے جسے کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا مگر بات پھر وہی دہراؤں گا کہ ایسے حالات بننے سے روکنا نہایت سہل تھامگر حکومت نے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش ہی نہیں کی اگر سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیکر آپریشن کا اعلان پارلیمان میں کیا جاتا تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے لیکن حکومت نے ذہانت و دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ جلدبازی میں ملکی سلامتی کے فیصلے کو متنازع بنا دیا ہے اسی بناپر اپوزیشن خم ٹھونک کر مخالفت پر اُتر آئی ہے سی پیک،پاک چین تعلقات اور دونوں ممالک کے معاہدوں کے حوالہ سے پاکستان کی تمام تر سیاسی قیادت یکجا اور ایک نظر آئی تحریکِ انصاف بھی پیش پیش دکھائی دی یکجہتی کا دوسرے روز ہی معدوم ہونا حکومتی حماقتوں کا نتیجہ ہے حالانکہ اب جبکہ چین نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ امن بحال اور چینی مفادات کے منافی سرگرم عناصر کا خاتمہ کیا جائے اب اگر دونوں ممالک میں جاری تعاون بحال رکھناہے تو امن دشمن عناصر کے خلاف تمام وسائل کو بروئے کار لانا ہوگاوگرنہ چینی قیادت کے صبر کاپیمانہ لبریز ہونے کو ہے ملک کی خراب معاشی حالت کے باوجود اگرہماری سیاسی قیادت سنجیدہ اور یکسو نہیں ہوتی تونہ صرف چین تعاون سے دستکش ہو سکتا ہے بلکہ باہمی تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

ہمیں سمجھنا ہو گا کہ دہشت گردی کا رجحان پاکستان کی معیشت کے لیے کسی طور سود مند نہیں اور یہ معاشی بحالی اور ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے اگر پاکستان نے معیشت کو بہتر بنانا ہے اور صنعت وحرفت کے میدان میں ترقی کے سنگِ میل طے کرنے ہیں تو ایسی پُرامن فضا ناگزیر ہے جس میں معاشی سرگرمیوں کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے دہشت گردی کے خاتمہ پر سیاست کی کوئی گنجائش نہیں علاوہ ازیں اچھے اور بُرے کی سوچ بھی ترک کرنا ہو گی حکومتی حلقے دعویدار ہیں کہ انھوں نے چین کے حوالے سے سب کو اعتماد میں لیا یہ موقف صداقت پر مبنی نہیں سچ یہ ہے کہ درپردہ عسکری قیادت نے تمام سیاسی قوتوں کو سی پیک کے لیے ایک جگہ بٹھانے کی کوشش کی جو کامیاب رہی اِس میں حکومتی عمل دخل نہ ہونے کے برابرہے اب بھی معیشت کی بحالی اورامن دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے اگر حکومت پارلیمان کو اعتماد میں لیکر چلے تو مکدر سیاسی فضا سازگار ہو سکتی ہے لیکن اِس کے لیے حکومت کو سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کرنا ہوگا وگرنہ آپریشن عزم استحکام کی مخالفت ہونے کے ساتھ ملک کے سیاسی سمندرمیں بھی بددستور جوار بھاٹے کی کیفیت پیدا ہوتی رہے گی۔