پچھلے کالم میں ملکی سالمیت و معیشت کو درپیش مسائل کے فوری اور دیرپا حل کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ ایک ایسا گرینڈ ڈائیلاگ کہ جس میں تمام سیاسی و طاقتور قوتوں کی شمولیت ہو۔ اور ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کا مصمم ارادہ۔ اب یہاں سب سے پہلے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈائیلاگ شروع کیسے ہو گا اور کون اس کی میزبانی کرے گا۔ تو یقیناً اخلاقی طور پہ یہ ذمہ داری ملک کے چیف ایگزیکٹو محترم وزیر اعظم پاکستان کو ادا کرنی ہوگی لیکن اگر وہ کسی بھی وجہ سے یہ کرنے سے قاصر ہوں تو پھر یہ کام وفاق کی علامت صدر مملکت کو کرنا چاہئے۔
اس کے بعد سب سے اہم مرحلے کی طرف بڑھتے ہوئے اس گرینڈ ڈائیلاگ کا ایجنڈا طے ہونا چاہئے۔ ایجنڈے میں کیا ہو گا، کیوں ہو گا اس پہ اتفاق رائے کے لئے اسپیکر قومی اسمبلی اور چئیر مین سینٹ کی سربراہی میں کمیٹیاں قائم کر دی جائیں جو تمام سیاسی و غیر سیاسی فریقین سے رائے لیکر اتفاق رائے سے چند نقاط پہ مبنی ایجنڈا طے کر دیں۔ ضروری نہیں کہ ہر نقطے پہ سو فیصد اتفاق ہو تو ایسی صورتحال میں اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے۔ اور وہ جو قائل نہیں انہیں قائل کیا جائے۔ کیونکہ کسی بھی گرینڈ ڈائیلاگ کا مقصد اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب اس میں شریک فریقین بنیادی نقاط پہ ہی اتفاق نا کر سکیں۔ لہذا اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے کہ سیاسی ایجنڈے سے پرہیز برتی جائے اور ایک قومی ایجنڈے کی تیاری پہ توجہ دی جائے۔ کیونکہ یہی وہ واحد وجہ ہو گی جس پہ طاقتور قومی ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ آن کھڑے ہوں گے۔
اب یہ قومی ایجنڈا ہو گا کیا۔ تو یقیناً اس وقت وطن عزیز کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ جن سے جلد از جلد نبٹنا انتہائی ضروری ہے۔ لہذا ایجنڈا ان مسائل کے حل پہ مشتمل ایک مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری ہو گا۔ کیونکہ اس وقت حکومت اور افواج یقینی طور پہ ملک کے دو صوبوں میں دہشتگردوں کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ دوسری طرف ایک تباہ حال، ڈیفالٹ کے دھانے پہ پہنچی ملکی معیشت۔ اس لئے لاء اینڈ آرڈر، معیشت کی بحالی، خارجہ پالیسی اور تعلقات تین ایسے نقاط ہیں جن پہ مکمل اتفاق ہو سکے گا۔ طاقتور ادارے جہاں اپنی رائے کا اظہار کریں گے وہیں ان کو یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ وہ دوسروں کی رائے کو بھی اہمیت دیں۔ اس گرینڈ ڈائیلاگ کی کامیابی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پہ ہی ہو گی۔ اور جہاں کہیں کسی نقطے پہ ڈیڈ لاک آ جائے تو سپریم کورٹ کی نمائیندگی کرنے والے جج صاحب کو ثالث مان کر ان سے فیصلہ کروا لیا جائے۔
ملک اپنی تاریخ کے ایک اور نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس لئے اب گرینڈ ڈائیلاگ اور اس کے نتیجے میں ایک مشترکہ قومی حکمت عملی ہی اسے واپس پٹڑی پہ چڑھا سکتی ہے۔ اب دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک میں بڑی کمپنیاں آئیں اور اندرونی و بیرونی سے انویسٹمنٹ ہو تو آپ کو ایک ساز گار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرے تو آپ کو خارجہ پالیسی پہ بھی نظرثانی کرنی ہو گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عوام کی جان، مال عزت محفوظ ہو تو آپ کو ملکی سرزمین کو امن کو گہوارا بنانا ہو گا۔
اسی طرح یہ گرینڈ ڈائیلاگ جہاں سیاسی پارٹیوں، انکی قیادت کے درمیان موجود اختلافات اور بد گمانیوں کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے وہیں طاقتور اداروں کو موقع فراہم کر سکتا ہے کہ وہ سیاسی نظام کو سمجھیں، اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں، اپنا کردار واضع کر سکیں، اپنی حدود و قیود کا تعین کر سکیں اور وطن عزیز کو نازک موڑ پہ سنبھال کر ترقی کی راہ پہ گامزن کرتے ہوئے صحیح معنوں میں ایک مضبوط، جمہوری ملک بنانے میں اپنا فعال کردار ادا سکیں۔ تاریخ بڑی ظالم ہے اور وہ کبھی بھی ان شخصیات کو معاف نہیں کرتی جو اپنی جھوٹی انا اور فائدے کی خاطر ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پہ لگاتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انا اور عناد کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک اور قوم کے اجتماعی فائدے کو فوقیت دی جائے۔ یاد رہے کہ یہ شائد آخری موقع ہو۔ خدا نخواستہ اگر حالات مزید بگڑ گئے تو یا تو عوام نکلے گی اور اپنے حقوق خود لے گی یا پھر خاکم بدہن ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائیگی۔ اسلئے اب مزید مصلحت اور دیر کی گنجائش نا ہے۔ بسم اللہ کیجئے اور ملک اور قوم کی خاطر وہ سب کر گزرئیے کہ جو تاریخ میں آپ کو سنہری حروف سے یاد رکھا جانے کا سبب بنے۔ عوام اور بین الاقوامی دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ (ختم شد)