سانگھڑ میں انتہائی چھوٹے دل کے ایک ”وڈیرے“ نے اپنی زمینوں میں داخل ہونے پر غصے میں آ کر ایک اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی، سوشل میڈیا پر اس کا چرچا ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس کا نوٹس لے کر اپنے جو نمبر ٹانک لئے وہ نمبر آئی جی سندھ یا سانگھڑ کے متعلقہ پولیس افسران بھی ٹانک سکتے تھے، اس ظلم کے خلاف اپنے طور پر کوئی قانونی کارروائی کر کے دوران سروس اپنے پاپوں کا تھوڑا بہت ازالہ وہ کر سکتے تھے، ممکن ہے یہ ازالہ انہوں نے اس لئے نہ کیاہو وہ وڈیرا کہیں کسی ایم این اے، کہیں کسی ایم پی اے کسی وزیر، کسی جج، کسی جنرل، کسی جرنلسٹ کا کوئی عزیز رشتہ دار یا جاننے والا نہ نکل آئے، ہمارے ہاں ظلم اتنی تیزی سے اس لئے پنپ رہاہے ہم اللہ سے زیادہ ”انسانوں“ کے خوف میں مبتلا ہیں، اگلے روز میں نے ایک عیاش شخص سے پوچھا ”تم کسی سڑک پر کھلے عام زنا کر سکتے ہو؟“ وہ بولا”میں پاگل ہوں، لوگ دیکھیں گے کیا سوچیں گے؟“، میں نے عرض کیا ”تمہیں لوگوں کی بہت فکرہے، یہی کام تم کسی بند کمرے میں کرتے ہو تمہیں یہ فکر کیوں نہیں ہوتی خدا تمہیں دیکھ رہاہے“، ایک بار ایک مشہور کالم نگار نے مجھ سے کہا ”میں نے شراب چھوڑ دی ہے“، میں نے اْن سے پوچھا ”شراب چھوڑنے کا مطلب یہ ہے آپ نے پانی پینا چھوڑ دیاہے، پھر آپ کا گزارا کیسے ہوگا؟ یہ کام آپ نے کیوں کیا؟، وہ بولے ”میں نے اپنے جگر کے کچھ ٹیسٹ کروائے تھے پتہ چلا میرا جگر شراب کی وجہ سے بڑی تیزی سے خرابی کی طرف بڑھ رہا ہے، میں نے اس ڈر سے شراب چھوڑ دی کہ میرا جگر کہیں مکمل طور پر خراب نہ ہو جائے“، میں نے بڑے ادب سے ان سے کہا ”کاش آپ یہ کام جگر کی خرابی کے خوف سے چھوڑنے کے بجائے خوف خدا سے چھوڑتے، جگر کا کیاہے، وہ تو شراب چھوڑنے کے باوجود خراب ہو سکتاہے“، جب تک یہ معاشرہ یعنی جب تک ہم دیگر خوفوں سے نجات حاصل کر کے خوف خدا میں مبتلا نہیں ہوں گے ہمارا خانہ خراب ہوتا رہے گا، فرمایا گیا ”کفر کانظام چل سکتاہے ظلم کا نظام نہیں چل سکتا“، پاکستان مکمل تباہی کے دہانے پر اسی لئے کھڑاہے یہاں ظلم کے نظام نے اپنے پنجے بہت مضبوطی سے گاڑ لئے ہیں، کل میں کہیں پڑھ رہا تھا ”بائیلوجیکلی انسان کے اندر غصے کے جذبات صرف بارہ منٹ تک رہتے ہیں“، اگر بارہ منٹوں تک انسان اپنے جذبات پر قابو پائے رکھے اس کا غصہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے، ہم سے بارہ سیکنڈ برداشت نہیں ہوتے ہم اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دیتے ہیں، حسد، لالچ، بغض عدم برداشت اور اس سے جْڑے ہوئے ظلم اور انتقام کے جذبوں نے اخلاقی و دینی طور پر ہمارا دیوالیہ کر دیاہے، ہمارے ہاں اتنے ظلم شاید جانوروں نے انسانوں پر نہیں کئے ہوں گے جتنے ”انسانوں“ نے جانوروں پر کئے، مذاق کی یہ بات دوسری طرف ایک حقیقت بھی ہے ”اسلام کے لئے جتنی قربانیاں بکروں نے دیں شاید ہی اور کسی نے دی ہوں گی“، ان ہی حالات میں ایک روز مجھے ایک دوست کا فون آیا کہ اْس کے بھائی کو سانپ نے ڈس لیاہے، میں نے بے ساختہ اس سے پوچھا ”سانپ بچ گیاہے؟“، جہاں تک سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا معاملہ ہے یہ ظلم اور عدم برداشت کی انتہاہے، پاکستان میں کچھ لوگ اپنے جنسی و دیگر مقاصد پورے کرنے کے لئے پرندوں یا جانوروں سے اور طرح کی بدسلوکیوں میں تو مشہور ہیں، اس طرح کا ظلم بہت کم دیکھنے اور سْننے میں آیا جو سانگھڑ میں ایک اونٹ پر کیا گیا، وزیراعلیٰ سندھ نے اس کا نوٹس لے کر ”معلوم وڈیرے“کے بجائے ”نامعلوم افراد“ کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی اجازت اس لئے دے دی یہ ”نامعلوم افراد“ ”بلڈی سویلینز“ تھے، میں سوشل میڈیا دیکھ رہا تھا ایک احمق انسان نے لکھا ”ہم ایک اونٹ کی ٹانگ کٹنے کا اتنا واویلا کر رہے ہیں دوسری طرف جو ظلم اسرائیل، فلسطینیوں پر ڈھا رہاہے اْس کی پروا ہی کسی کو نہیں ہے“ اس احمق انسان کو شاید معلوم نہیں سوشل میڈیا نے فلسطینیوں کے حق میں بھی کھل کے آواز بلند کی ہے، گو کہ پاکستانیوں کو اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں اجتماعی طور پر کھل کر بات یا مظاہرے کرنے کی اجازت نہیں اور بزدل پاکستانیوں نے اس پابندی کو چیلنج کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی، مگر انفرادی طور پر بے شمار پاکستانیوں نے اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، دوسری بات یہ کہ ہر واقعے کا اپنا ایک الگ جذباتی پس منظرہوتاہے اس کے مطابق کسی معمولی نقصان پر کسی بے زبان کی ٹانگ کاٹنے کا عمل دل دہلا دینے والاہے، ٹانگ کٹنے کے بعد وہ اونٹ جس طرح کراہ رہا تھا اس منظر نے مجھے رلا کے رکھ دیا، میری عید کی ساری خوشیاں برباد ہو گئیں، اب سوشل میڈیا پر ایک اور خبر گردش کر رہی ہے اس اونٹ کے مالک کو اس بناء پر قتل کر دیا گیا ہے اس نے اپنے اونٹ کی ٹانگ کٹنے کا چرچا کیوں کیا تھا، اللہ جانے یہ خبر درست ہے یا نہیں؟ مگر یہ درست ہے سندھ کے کچھ وڈیرے اور طاقتور ظلم و انتقام میں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، یہ بھی اس وڈیرے کی مہربانی ہے اس نے اونٹ کی صرف ایک ٹانگ کاٹی، وہ چاروں ٹانگیں کاٹ دیتا اس کا کسی نے کیا بگاڑ لینا تھا؟ یہ کوئی گورا یا کوئی کافروں کا ملک تھوڑی ہے جہاں ”جان“ کی اہمیت ہوتی ہے چاہے وہ انسان کی ہو یا حیوان کی ہو، آسٹریلیا میں سانپ مارنا قانوناً جرم ہے، وہاں لوگ اپنے گھر میں سانپ دیکھ کر متعلقہ محکمے کے ایمرجنسی نمبر پر کال کرتے ہیں،وہ فوراً آتے ہیں اور ایک مخصوص طریقے کے مطابق سانپ پکڑ کر لے جاتے ہیں، ناروے کے شہر اوسلو کی ایک مئیر سائیکل پر اپنے دفتر جارہی تھی راستے میں بلی کا ایک بچہ اس کی سائیکل تلے آ کے مر گیا، اس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اپنے استعفے میں اس نے لکھا ”میری وجہ سے ایک جان چلی گئی ہے میں صدمے سے نڈھال ہوں، اس کیفیت میں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر سکتی“، اس نے یہ نہیں لکھا ”میری وجہ سے بلی کے بچے کی جان چلی گئی ہے، اس نے صرف ”جان“ لکھا، ایک ھمارا معاشرہ ہے جہاں انسانی جان کی کوئی اہمیت ہے نہ حیوانی جان کی ہے، بلکہ جانور کئی حوالوں سے اب یہاں انسانوں سے بہتر دکھائی دیتے ہیں، کبھی کبھی میں سوچتاہوں جانور شاید شکر ادا کرتے ہوں گے وہ کتنے خوش قسمت ہیں ”انسان“ نہیں بنائے گئے۔