قربانی سنت اور حج فرض ہے، ان پر جو اس کی مالی استطاعت رکھتے ہوں، کچھ لوگ خصوصاً ہمارے کچھ افسران حلال کی کمائی سے اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس کا بندوبست حرام کی کمائی سے کر لیتے ہیں، کیونکہ حرام حلال میں اب کوئی تمیز تو رہی نہیں، جیسے ایک واقعہ میں اکثر لکھتا ہوں ایک ڈی ایس پی سے میں نے کہا ”آپ نے میرے عزیزوں سے پانچ لاکھ روپے رشوت لے کر بھی ان کا کام نہیں کیا، آپ کو شرم نہیں آئی؟، وہ بولے”بٹ صاحب میں نے رشوت لی ہے تو میں کام کروں گا، میں نے اپنے بچوں کو کبھی حرام نہیں کھلایا“، بات اس لحاظ سے ان کی بھی درست تھی کہ ہمارے ہاں لوگ اخلاقی طور پر اس قدر گر گئے ہیں رشوت لے کے بھی کام نہیں کرتے، بہت سال پہلے مجھے ایس ایچ او ٹبی سٹی جسے ”ایس ایچ او ہیرا منڈی“ کہنا چائیے، کے ایک کار خاص (محرر) نے بتایا، ”میں اپنے ایس ایچ او صاحب کے لئے تھانے کی منتھلی ہر مہینے کی پانچ سے دس تاریخ کے درمیان اکٹھی کرتا ہوں مگر اس بار صاحب نے حکم دیا ہے ایڈوانس منتھلی اکٹھی کرنی ہے کیونکہ صاحب اگلے ہفتے حج پر جارہے ہیں اور وہ کہتے ہیں مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے، میں نے احرام و دیگر سازوسامان خریدنا ہے،ساتھ سعودی ریال بھی چاہئیں، اس کے علاوہ ٹریول ایجنٹ کو اس کا بقایا بھی دے کے جانا ہے کیونکہ زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا“، محرر صاحب نے مزید بتایا ”ہمارے صاحب بہت دین دار شخص ہیں، وہ کہتے ہیں جو مسلمان کسی کا قرض ادا کئے بغیر مر جائے اس کا جنازہ جائز نہیں ہوتا“، یہی بات میں اپنے صاحب کی طرف سے اکثر اپنے تھانے کی رہائشی طوائفوں کو بھی سمجھاتا ہوں منتھلی بھی قرض کی طرح ہوتی ہے اسے بروقت بلکہ وقت سے پہلے ادا کر دینا چاہئے، اگر منتھلی ادا کئے بغیر آپ مر گئیں آپ کی بخشش ہی نہیں ہونی چاہے آپ تماشبینوں کا جتنا چاہے جی خوش کر لیں“، ایسی ہی کمائی سے ہمارے ایک دوست افسر نے تین حج کئے میں نے ان سے پوچھا ”آپ حرام کی کمائی سے ہر سال حج پر کیوں چلے جاتے ہیں؟“، وہ بولا ”بھیا حلال کی کمائی سے ایک حج کر تو لیا تھا اور کتنے کروں؟“، بیشمار لوگ حلال کی کمائی سے قربانی کی استطاعت بھی نہیں رکھتے لہٰذا وہ بھی اپنی استطاعت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں، میرا ایک عزیز مجھے بتا رہا تھا پچھلے ہفتے میرا ایک جائز کام کرنے کے تحصیل دار صاحب نے دس بکرے مانگے ہیں، بڑی مشکل سے وہ پانچ بکروں پر راضی ہوئے ساتھ یہ شرط انہوں نے رکھی قصائی کا معاوضہ بھی تم دو گے، میں نے ان سے کہا ”آپ اتنے بڑے افسر ہیں آپ کو قصائی کو معاوضہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟“ وہ بولے ”جس طرح ڈاکٹر اور وکیل کی فیس لازمی ہوتی ہے اسی طرح قصائی کا معاوضہ بھی لازمی ہوتا ہے، جس طرح فیس کے بغیر وکیل کیس خراب کر دیتے ہیں یا ڈاکٹر مریض مار دیتے ہیں اسی طرح معاوضے کے بغیر قصائی نہ مڈیاں ٹھیک لاتا ہے نہ چھریاں ٹوکے تیز کروا کے لاتا ہے اور گوشت خراب کر کے چلے جاتا ہے“، ایک اور بات جو میں دوسروں کی طرح اکثر سوچتا ہوں عمل نہیں کرتا کہ اب ہمارے حج اور قربانی میں اتنا دیکھاوا آگیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے اگر اپنے حج اور قربانی وغیرہ کو اپنے فیس بک یا سوشل میڈیا پر ہم نہیں ڈالیں گے اس کا ثواب شاید آدھا رہ جائے گا، اس بار تو کمال ہی ہو گیا، میں نے دیکھا اکثر لوگ حج میں اپنے ایک ایک لمحے کو سوشل میڈیا پر ڈال رہے تھے، ایسے ہی ایک دوست کو میں نے میسج کیا”اگر تمہیں ان کاموں سے فرصت مل جائے تو اسی بہانے حج بھی کر لینا“ ایسے لوگ شیطان کو کنکریاں اللہ جانے کس منہ یا ہاتھ سے مارتے ہوں گے؟ شیطان کا بس چلے آگے سے انہیں جوتے مارے، ایک پولیس افسر فرما رہے تھے”اگلے سال میں نے حج پر لازمی جانا ہے“، میں نے پوچھا ”سات سو چوہے پورے ہوگئے کیا؟، وہ بولے”نہیں، بات در اصل یہ ہے اس کے بعد مجھے لوگ ”حاجی صاحب“ کہنا شروع کر دیں گے پھر میرا کوئی ”کلائنٹ“ مجھے ”فیس“ دیتے ہوئے ہچکچایا نہیں کرے گا“، ہمارے ہاں ”حاجی صاحب“ کے لقب یا ”اعزاز“ کا اب اتنا غلط استعمال ہوگیا ہے اکثر چوروں، ڈاکوؤں، جواریوں، بدمعاشوں، قاتلوں، سود خوروں، بھتہ خوروں اور ناجائز فروشوں کو ان کے دوست احباب اور جاننے والے ”حاجی صاحب“ کہہ کے مخاطب کرتے ہیں، کل میں سوشل میڈیا پر اپنے ایک مشہور مزاحیہ فنکار کا ایک وڈیو کلپ دیکھ رہا تھا موصوف فرما رہے تھے ”اس بار حج پر میں مسلسل دعا کرتا رہا اللہ مجھے اتنی عمر عطا فرما دینا میں ایک اور حج کر لوں“، شکر ہے انہوں نے یہ دعا نہیں فرمائی”اللہ میں اسی حج پر فوت ہو جاؤں اور یہیں دفنایا جاؤں“، انہوں نے یقیناً یہ مشہور و معروف واقعہ سن رکھا ہوگا کہ ایک صاحب دوران حج دیگر دعاؤں کے ساتھ رو رو کے یہ دعا بھی مانگ رہے تھے ”اللہ مجھے ابھی اسی وقت اپنے گھر (خانہ کعبہ) میں موت کی سعادت نصیب فرما دے“، اس دوران اچانک ان کے دل میں شدید درد اٹھا، انہوں نے دل پر ہاتھ رکھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگے ”یا اللہ دعاواں تے میں ہور وی بہت منگیاں سی“، حج اور قربانی کے تقاضے پورے کرنے میں بندہ احتیاط کرے نہ کرے دعاؤں کے معاملے میں ضرور احتیاط کرلینی چاہئے، ایک لڑکی اپنی شادی کے لئے بڑا شرما کے یہ دعا کرتی تھی ”اللہ میرے والدین کو ایک خوبصورت داماد عطا فرما دے“، ہر بار اس کی کسی نہ کسی بہن کی شادی ہو جاتی تھی، حج اور قربانی کی بات ہو رہی ہے مجھے یاد آیا چند برس قبل اپنے ایک ”شیخ“ دوست سے میں نے کہا ”اللہ نیتوں کا وہ پھل دیتا ہے جو وہ عملوں کا بھی نہیں دیتا کیونکہ نیت میں دکھاوا نہیں ہوتا“، میرے اس ”شیخ دوست“ نے زندگی میں میری اور تو کوئی بات مانی نہیں، میری اس بات پر وہ پکا ہو کے بیٹھ گیا ہے چنانچہ وہ ہر سال حج اور قربانی کی صرف نیت کرتا ہے عمل نہیں کرتا، وہ کہتا ہے ”تم نے خود ہی تو مجھ سے کہا تھا ”اللہ نیتوں کا وہ پھل دیتا ہے جو وہ عملوں کا بھی نہیں دیتا“، چند روز پہلے میں نے اس سے کہا ”میں اپنے یہ الفاظ واپس لیتا ہوں لہٰذا اب تم عملی طور پر حج اور قربانی کرو“، وہ بولا”تم تو ہو ہی بے زبانے“، تم اپنے کہے سے مکر سکتے ہو مگر میں اپنی اس روایت سے کسی صورت میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا کہ کسی دوست کی کسی اچھی بات کو عارضی طور پر نہیں مستقل طور پر پلے باندھ لینا چاہئے
”ھن دسو بندہ ایتھے کی کرے؟“