گدھے ہی گدھے!

 

قارئین کرام! آج بڑی عید کا دن ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج میں آپ سب کو اس برکتوں بھرے دن کی مبارک باد دینے اور قربانی کے جانور بکروں، دُنبوں، ویہڑے ویہڑیوں اور اونٹوں کے ذکر ساتھ اپنے کالم کا آغاز مہدی حسن کی آواز میں مشہور عالم گیت ”عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے“ سے کرتا۔ مگر کیا ہے کہ جب سے میں نے ٹی وی پر وفاقی وزیر خزانہ جناب اورنگزیب کے مالی سال 2023-24ء کا اقتصادی سروے سنا ہے تب سے میرے سر پر مسلسل گدھوں کا بھوت سوار ہے۔ بھلے آپ میری اس پسند کو کوئی بھی نام دیں لیکن مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اپنی معصوم شکل اور موٹی عقل کی وجہ سے الو اور گدھے دونوں ہی مجھے بہت ”ہانٹ“ کرتے ہیں۔ ”ہانٹ“ تو خیر مجھے کتے بھی بہت کرتے ہیں لیکن اُن کا معاملہ الوؤں اور گدھوں سے تھوڑاسا اس لیے مختلف ہے کہ ان میں سے اکثر کتے بعد میں اچھے خاصے ”سور کے بچے“ نکل آتے ہیں۔ کتوں کا یہی دوغلا اور ہلکا پن ہے جس کی وجہ سے میری کتوں سے اکثر کم ہی بنتی ہے۔ اس کے باوجود کسی نہ کسی بہانے میرے کالموں میں ان کا ذکر خیر نکل ہی آتا ہے۔ جس پر ایک دن میرے دوست زبیر بشیر نے مجھے کہا ”ابرار صاحب! بقول آپ کے جب یہ طے ہے کہ آپ کی کتوں سے نہیں بنتی تو پھر دفعہ کریں ان کتوں کو کیوں اپنے کالموں میں ان کا بار بار ذکر کرتے ہیں“۔ زبیر بشیر کا سوال سُن کر میں نے ایک آنکھ شرارت سے میچتے ہوئے کہا ”میرے دوست میں جان بوجھ کر ایسا محض اس لیے کرتا ہوں کہ شاید میرے کالموں میں اپنا ذکر خیر پڑھ کے کسی کتے کے اندر انسانیت جاگ جائے“۔ اس کے بعد میں اور زبیر بشیر کتوں اور انسانیت کے تعلق پر کتنی ہی دیر بغیر کسی وقفے کے بے تحاشا ہنستے رہے۔ آج بھی جب کسی کتے کو دیکھ کر مجھے اپنی یہ بات یاد آتی ہے تو اس کے سامنے میں بڑی مشکل اپنی ہنسی روک پاتا ہوں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی وقت بات کریں گے ابھی میں گدھوں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں جن کے متعلق وفاقی وزیر خزانہ نے مالی سال 2023-24ء کا اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ ملک میں ایک لاکھ گدھوں کا سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ میرے سامنے اس وقت 12جون 2024ء بروز بدھ کا ایک بڑا قومی اخبار ہے جس کے پہلے صفحے کی سپر لیڈ کے عین نیچے تین کالمی باکس میں بجٹ سے ایک روز پہلے وفاقی وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کیے گئے سالانہ اقتصادی سروے سے متعلق اہم خبروں کو جگہ دی گئی ہے۔ مختلف شعبوں کی کارکردگی کے حوالے سے دئیے گئے اعداد و شمار پر مشتمل اس باکس میں یوں تو ساری خبریں ہی اہم ہیں لیکن بطور خاص اس باکس میں مجھے جن دو خبروں نے متوجہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تین کالمی خبر کے مطابق 2021-22 میں گدھوں کی تعداد 57 لاکھ تھی جو 2023-24 میں بڑھ کر 59 لاکھ ہو گئی ہے۔ جبکہ اسی خانے میں ایک دوسری سنگل کالمی خبر ہے جس کے مطابق 2022-23ء میں پورے ملک میں 23 ہزار تین سو اٹھانوے مرد و خواتین نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ بظاہر تو یہ دو الگ الگ خبریں ہیں لیکن حکومت وقت کے سالانہ اقتصادی سروے میں ان کا آگے پیچھے ذکر اور اخبار کے فرنٹ صفحے پر ایک مخصوص باکس میں ان کو اوپر نیچے لگانا اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے یہاں ملکی ترقی یا بربادی میں گدھوں اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا کہیں نہ کہیں آپس میں کوئی تعلق ضرور ہے۔ اب یہ کیا تعلق ہے میرے خیال میں اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ کے علاوہ اگر کوئی بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں ہے تو وہ ”بقلم خود“ گدھے اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہی ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ذاتی طور پر میں اس لیے بھی بہت زیادہ محتاط ہوں کہ کیونکہ میرے جاننے والوں میں چند ایک گدھوں کے ساتھ کچھ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ میں نہیں چاہتا میرے کسی غلط اندازے سے کسی بھی ایک فریق کی دل آزاری ہو اس لیے کہ میرے لیے گدھے اور پی ایچ
ڈی ڈاکٹر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ برابر اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر اس خطرے کے باوجود نامعلوم اس کھٹے میٹھے موضوع میں ایسی کیا کشش ہے کہ تمام تر اندیشوں کے باوجود دل اور قلم اپنے آپ ہی اس ”موضوع ممنوعہ“ کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے۔ دراصل اس قسم کے موضوعات ہوتے ہی ایسے نازک ہیں کہ ان کو چھیڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے مبادا ذرا سی بے احتیاطی سے قلم قابو سے اور ”موضوع سخن“ آپے سے باہر نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر گدھوں کے ذکر کے حوالے سے تو میں اس لیے بھی زیادہ محتاط ہوں کیونکہ ان پر بات کرتے ہوئے سنجیدگی برقرار رکھنے کے ساتھ سیدھے سادے گدھوں اور طاقت و اختیار کی مختلف کرسیوں پر براجمان ”انتہائی گدھوں“ میں تفریق کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اس موضوع پر میں پی ٹی آئی دور حکومت میں بڑی آسانی اور دھڑلے سے پہلے بھی ایک دو کالم لکھ چکا ہوں۔ خاص طور پر جب مجھے پنجاب میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کا یہ ”کارنامہ“ معلوم ہوا تھا کہ بزدار حکومت نے اوکاڑا میں گدھوں کی افزائش کا سب سے بڑا فارم قائم کیا ہے۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں اور لاکھ خامیاں ہوں مگر ایک بات کا کریڈٹ انہیں ضرور دینا پڑے گا کہ اُن کے دور حکومت میں گدھوں کا بہت خیال رکھا گیا تھا جس پر کسی ستم ظریف کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ اس میں ایسی انوکھی بات کیا ہے آخر اپنے ہی اپنوں کا خیال رکھتے ہیں۔ بہرحال اگر کسی تعصب کے بغیر پی ٹی آئی دور حکومت کی گدھوں کی افزائش جیسی پالیسیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ مانناپڑے گا کہ یہ جو آج ملک عزیز میں سالانہ ایک لاکھ گدھوں کے ساتھ پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے یہ وہ ثمرات ہیں جن کے بیج اپنے دور حکومت میں پی ٹی آئی کی وژنری حکومت نے بوئے تھے موجودہ حکومت کو ہرگز اس کا کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر پی ٹی آئی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اقتدار کے پانچ سال مکمل کر جاتی اور اس کے بعد ان کے مزید دس سالہ اقتدار کا منصوبہ بھی کامیاب ہو جاتا تو کسی اور شعبے میں بھلے ترقی ہوتی یا نہ ہوتی گدھوں کی پیداوار کے حوالے سے ایک خود کفیل ملک کے طور پر کیا آج ہمارے ملک میں ہر طرف گدھے ہی گدھے نہ ہوتے۔