مکافات عمل!

مکافات عمل!
محفل میں موجود ہر شخص اُسکی توجہ کا مرکز تھا، کچھ لوگ اسکی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور اسے داد بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی نے اُسے مزید پُر اعتماد کر دیا، وہ زیادہ اونچی آواز میں بے باکی سے اپنی کامیابی کے قصے سنا رہا تھا۔ ترنگ میں آ کر اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ جب بھی اپنے گھر فون کرتا ہے، تو سخت لہجہ میں بات کرتا ہے، اسکی بیوی کی مجال نہیں کہ اُس کے سامنے چوں چراں کر سکے، اسکا اپنے گھر میں بڑا تحکم و رعب ہے، گویا وہ اپنے جاہلانہ رویے اور لچر پن کو اپنی کامیابی بتا رہا تھا جبکہ ان افراد کو ہدف تنقید بنا رہا تھا، جہنوں نے اپنے اپنے گھروں میں ادب و احترام، شائستگی کا رویہ اختیار کیا ہوتا ہے۔
محفل میں ایک درمیانی عمر کا باریش شخص بھی موجود تھا، جس نے ساری گفتگو بڑے تحمل اور بردباری سے سنی اور دیگر اشخاص کی حوصلہ افزائی کو بھی محسوس کیا، کہ کوئی فرد بھی اسے ٹوک نہیں رہا، تو باریش شخص نے اس کو روکا اور پوچھا کہ بھئی آپ کے کتنے بچے ہیں؟ اس نے کہا، اللہ رب العزت نے اسے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا ہے۔ باریش شخص نے اپنی گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے اگلا سوال کیا کہ یقینا بیٹیاں بڑی ہونگی تو تم انکی شادیاں کرو گے؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو باریش شخص نے کہا کہ تم اپنے دامادوں کو بھی یہی نصیحت کرنا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے جو تم اپنی بیوی سے کرتے ہو، اور اگر یہ اپنے خاوند کی اطاعت میں ذرا سی بھی کوتاہی کریں تو ان کی خوب دھلائی کریں جیسے تم اپنی بیوی کی کرتے ہو۔ یہ سننا تھا کہ اُس شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، پُر اعتماد چہرے سے مایوسی ٹپکنے لگی، وہی شخص جو چند لمحے پہلے محفل پر چھایا ہوا تھا یکایک پریشانی اور غصے کے ملے جلے جذبات سے منہ سے جھاگ بہنا شروع ہو گئی۔ بیشتر اس کے وہ باریش شخص سے دست و گر بیان ہوتا، کچھ افراد نے درمیان میں مثبت کردار ادا کیا۔ تاہم باریش شخص نے اپنا مکالمہ جاری رکھا اور کہا، بھئی اتنا غصہ کس بات کا، تم جس رویے اور سوچ کی بات کر رہے ہو میں نے تو اس کو دہرایا ہے۔ کیا تمہاری بیوی کسی کی بیٹی نہیں؟ کیا اسکا کوئی خاندان نہیں؟ اسکے والدین، بہن، بھائی نہیں جو حقوق تمہیں بطور شوہر حاصل ہیں، وہی حقوق تمہارے دامادوں کو بھی حاصل ہونگے۔ جو سلوک تم اپنی بیوی سے کر رہے ہو اگر یہی سلوک تمہارے داماد تمہاری بیٹیوں سے کریں تو اس میں بُرا کیا ہے؟
باریش شخص کا مکالمہ سن کر محفل کا تو ماحول ہی بدل گیا! وہ لوگ جو اسکی لغویات سے محظوظ ہو رہے تھے، یک دم خاموش ہو گئے محفل کا ہیرو چند جملوں میں زیرو ہو گیا، خاموشی کا یہ عالم تھا کہ سانسوں کی آواز بھی سنائی دینے لگی۔ باریش شخص نے جاری سکوت کو توڑا اور اپنی بات دوبارہ شروع کی۔ اور محفل میں موجود تمام افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خوشی و سکون صرف اللہ کے قوانین میں ہے، اللہ کے قوانین ہی اٹل ہیں جن میں کوئی رد و بدل نہیں کر سکتا۔ جو باہمی اداب و احترام و شائستگی کا حکم دیتے ہیں۔ بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے پیار، گھر میں شائستگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جو بھی فصل کاشت کرو گے، وہی کاٹو گے، دوسروں کیلئے مشکلات و پریشانیاں پیدا کر کے خود عزت کی زندگی کیسے گزار سکتے ہو؟ ہمارے بیشتر سماجی مسائل ہمارے دوسرے معیار، جہالت پر مبنی رویوں کی وجہ سے ہیں، ساس بہو کی لڑائی کی بنیادی وجہ احمقانہ، جاہلانہ سوچ ہے۔ جب بھی کوئی خاتون اپنے بیٹے کی شادی کرتی ہے، تو وہ بضد ہوتی ہے کہ اسکی بہو جوائنٹ فیملی کا حصہ رہے۔ یہی نہیں بلکہ بہو سارے گھر کے کام کاج کا بوجھ اٹھائے گویا انہیں بہو کی نہیں بلکہ ایک نوکرانی کی ضرورت تھی جو پوری کی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہو نے کونسے کپڑے پہننے، کھانا پینا کیا ہے۔ خاندان میں کس کے ساتھ ملنا ہے، کہاں جانا ہے۔ یہ سارے فیصلے اس کا اختیار ہے۔
دوسری طرف یہی خاتون اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ کرے گی تو اُسکی پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ لڑکا الگ گھر میں رہے، اس لیے کہ اُسکی بیٹی بڑی لاڈلی ہے، وہ جوائنٹ فیملی میں ایڈ جسٹ نہیں ہو سکتی اور اپنی بیٹی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گی۔ اُسے اپنی بیٹی میں ہر خوبی نظر آئے گی، جن سہولیات کا تقاضا وہ اپنی بیٹی کیلئے کرے گی یہی حق وہ اپنی بہو کو دینے پر تیار نہیں ہو گی۔ تیسری طرف یہی خاتون جب خود بہو بن کر اپنے سسرال آتی ہے، تو اُسے سسرال ایک آنکھ نہیں بھاتا، وہ زیادہ وقت اپنے میکے میں گزارنا پسند کرتی ہے، وہ اپنے والدین کے گھر کے رسم و رواج کو کسی قیمت پر ترک کرنا نہیں چاہتی۔ وہ ہر صورت میں اپنے سسرال سے زیادہ وقت اپنے میکے گزارنا چاہتی ہے اور انہی اطورا کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ یہیں سے خرابی کا آغاز ہوتا ہے، وہ یہ بھول جاتی ہے کہ جو فصل وہ کاشت کر رہی ہے، کل کو وہی کاٹنا پڑے گی، یہی مکافات عمل ہے۔