بجٹ2024ء مہنگائی میں کمی اہم اقدام

 

وفاقی حکومت سمیت پنجاب، سندھ کی جانب سے بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ قومی بجٹ کے تحت حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے ہیں تاہم اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریباً 4 گنا زیادہ ہے۔ دفاع کیلئے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ایف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کر کے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے۔ نان ٹیکس محصولات وغیرہ کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہو گی لہٰذا خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔ بجٹ میں حکومت نے کم سے کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار مقرر کی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد موبائل فونز، لگژری گاڑیاں، سیمنٹ، جائیدادیں، تانبے سے بنی اشیا، کاغذ اور کئی دیگر چیزیں مہنگی ہوئی ہیں۔ دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کردہ بجٹ میں متوسط طبقے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں ٹیکسوں کی مد میں ہونے والے اضافے اور تیل اور گیس پر لیوی کی مد میں زیادہ محصولات سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس کا بوجھ اسی طبقے کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ سرکاری ملازمین تو ملک میں 10سے11لاکھ کے لگ بھگ ہیں جبکہ سفید پوش ملازمین کی بڑی تعداد نجی شعبے کی کمپنیوں میں کام کرتی ہے جہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ابھی تک ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جا رہیں۔ جبکہ وفاق کے بعد پنجاب کا بجٹ بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ پنجاب کا بجٹ ملکی تاریخ میں خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں پیش ہوا جس میں صوبے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے گزشتہ 100 دن کے دوران کی جانیوالی کاوشوں کی واضح جھلک دکھائی دی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس بجٹ کو ٹیکس فری بجٹ قرار دیا گیا ہے جس میں صوبائی سرکاری ملازمین میں گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اور گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کیلئے 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ مزدور کی کم از کم اجرت 37 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ صوبائی بجٹ میں بڑے عوامی فلاح کے منصوبوں میں سے پانچ بڑے شہروں میں ماحول دوست بس سروس، معذوروں کیلئے چیف منسٹر ہمت کارڈ پروگرام، ٹرانس جینڈر سکل پروگرام، ایئر ایمبولینس منصوبہ، ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے مفت سولر پینلز کی فراہمی، ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں ادویات کی مفت فراہمی، طلبہ کیلئے لیپ ٹاپ سکیم، کسانوں کیلئے کسان کارڈ، گرین ٹریکٹر اور ڈیری فارمنگ کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی شامل ہیں۔ مزید برآں لائیو سٹاک کارڈ، ماڈل ایگری کلچر مالز اور تعلیم اور صحت کے منصوبے بھی پنجاب کے بجٹ میں شامل ہیں۔ پنجاب کے پانچ ہزار 446 ارب روپے کے مجموعی حجم والے اس بجٹ میں ترقیاتی سکیموں کیلئے 842 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں کل آمدن کا تخمینہ چار ہزار 643 ارب 40 کروڑ روپے لگایا گیا ہے جس کیلئے صوبے کے اپنے وسائل پر انحصار کیا گیا ہے۔ صوبے کی آمدن میں این ایف سی ایوارڈ سے حاصل ہونیوالی 3 ہزار 683 ارب 10 کروڑ روپے کی رقم بھی شامل ہے جبکہ کورٹ اور سٹیمپ ڈیوٹی میں اضافہ کر کے پنجاب کا ریونیو بڑھایا گیا ہے۔ بجٹ میں 50 لاکھ روپے تک کی رہائشی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا اور سیلف اسسٹمنٹ سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ مفت وائی فائی اور 77 نئے میگا منصوبے متعارف کرائے گئے جبکہ پانچ مرلہ تک کا گھر بنانے کیلئے آسان قرضے کی فراہمی کی سکیم بھی بجٹ کا حصہ ہے۔ اپنی چھت، اپنا گھر، لاہور ماڈل فش مارکیٹ، ایکواکلچر شرمپ فارمنگ، 2380 کلو میٹر سڑکوں کی تعمیر، انڈر گریجویٹ سکالرشپ شامل ہیں جبکہ سکولز میل اور مریم کی دستک پروگرام کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم مریم نواز نے اس بجٹ کو ٹیکس فری قرار دیا ہے۔ انہوں نے تین ماہ میں مہنگائی میں کمی کا بھی عندیہ دیا۔ اسی طرح صوبائی بجٹ میں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے ازالہ کیلئے 80 ارب روپے سے زائد منصوبوں کا اعلان ہوا۔ صحافی برادری کیلئے یہ خوشخبری سنائی کہ بجٹ میں ان کیلئے ایک ارب روپے کا ہیلتھ پروگرام شامل کیا گیا ہے۔ تاہم مذکورہ بجٹ میں تنخواہیں اور پنشن بڑھانا خوش آئند ہے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں پر قابو پا لیا جائے تو چھوٹے ملازمین اور عام آدمی کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ پنجاب کا 842 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ گذشتہ صوبائی بجٹ سے 28 فیصد زیادہ ہے۔ بے شک وزیراعلیٰ مریم نواز سالانہ ترقیاتی ترقی میں مسلم لیگ ن کی روشن روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ترجیح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے نے اپنی ترجیحات درست طریقے سے طے کی ہیں۔ زرعی شعبے میں ٹیکسوں کو کم سے کم رکھنے اور خصوصی اقدامات کے لیے 45 ارب روپے مختص کرنے سے اس بجٹ کے ذریعے پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توانائی فراہم کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ آخر میں، پنجاب کا بجٹ امید کی کرن ہے، اور اس کے ثمرات صوبے کے تمام شہریوں تک پہنچنے چاہئیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ بجٹ پیش کرتے وقت ہر حکومت کے یہ بیان سننے کو ملتے ہیں کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، بجٹ عوام دوست اس سے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت کچھ مختلف ہی ہوتی ہے۔ اس وقت اشرافیہ کو فراہم کی جانے والی مراعات کا بوجھ براہ راست متوسط طبقے پر پڑ رہا ہے لہٰذا سرکاری ملازمین اور کابینہ کے ارکان کو پٹرول اور بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی مکمل بند کر کے غیر ضروری دوروں پر پابندی لگانا وقت کا تقاضا ہے۔ نان فائلرز کی حوصلہ شکنی کے لیے کیے جانے والے اقدامات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کی جانے والی کوششیں، لگژری گاڑیوں کے ٹیکس میں اضافہ اور حکومت کے دیگر خوش نما دعوے حقیقی ترجمان تبھی بنیں گے جب مہنگائی و بے روزگاری پر قابو پا کر اشیا خور و نوش کی سستے داموں فراہمی یقینی ہو گی۔