مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے سے حالات مزید خراب ہونے کے امکانات واضح ہیں، اس صورتحال میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اب بھارت میں اقلیتوں کے حقوق پر باریک بینی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔انسانی حقوق کے گروپوں کا الزام ہے کہ نریندر مودی کے دور میں آب و ہوا خراب ہوئی ہے۔ وہ نفرت انگیز تقاریر میں اضافے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے، شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی املاک کی مسماری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے ہیں۔امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 1947 سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔وشوا ہندو پرشاد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہے۔ حلال جہاد، گؤ رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے سالانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں ’بڑے پیمانے پر‘ بدسلوکی کے واقعات ہوئے جبکہ ملک کے باقی حصوں میں اقلیتوں، صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر حملے کیے گئے۔
ایک سال قبل ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ کوکی کی اقلیتی مراعات کو میٹی تک بڑھایا جائے، جس کے بعد منی پور نے اپنے قبائلی کوکی۔ زو اور اکثریتی میتی کی آبادیوں کے درمیان شدید لڑائی دیکھی ہے، جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی پور میں مئی اور نومبر کے درمیان 60 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔منی پور میں جاری حالیہ فسادات میں 400 سے زائد چرچ نذر آتش کیے جا چکے ہیں جبکہ 2008 میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600 گاؤں اور 400 چرچ جلا ڈالے تھے۔
بھارت کے باقی حصوں میں، محکمہ خارجہ نے ’متعدد واقعات‘ کی اطلاع دی جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ’حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا یا انہیں ہراساں کیا‘۔ مثال کے طور پر، محکمہ انکم ٹیکس نے 2023 کے اوائل میں بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی لی جب اس نے ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقیدی دستاویزی فلم جاری کی۔بھارتی حکومت نے اس وقت کہا تھا کہ تلاشی انتقامی نہیں تھی۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2023 میں اپنے پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 180 ممالک میں سے 161 نمبر پر رکھا تھا، جو ملک کی اب تک کی سب سے کم پوزیشن ہے۔امریکی جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں نے امتیازی سلوک کی اطلاع دی ہے، جس میں تشدد کی کالز اور غلط معلومات پھیلانا شامل ہیں۔
حالیہ انتخابات میں مودی کی جیت بھارت کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گئی۔جس بات کو بین الاقوامی سطح پر کم توجہ ملی،وہ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یار (آر ایس ایس) کی زیر قیادت عسکریت پسند ہندوتوا تنظیموں کا مجموعہ ہے۔ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ایک واضح طور پر ہندو ملک بننا ہندوستانی ریاست کو اس کے آئین میں تصور کئے جانے والے مخالف میں بدل دے گا۔اس سے کروڑوں ہندوستانیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا کیونکہ اس کا مطلب بنیادی اداروں، اصولوں اور ان قوانین کو معطل کرنا ہے جو سیکولرازم اور جمہوریت کی خصوصیت رکھتے ہیں۔
مودی کے تیسری بار اقتدار پر بیٹھنے سے یہ خطرہ بڑھ جائے گا کہ گزشتہ دس سال سے ہندو قوم پرست ذہنیت اپنے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرے گی۔ مسلمان ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ غیر محفوظ ہیں، جو حالا ت مودی سرکار نے بنا دیئے ہیں اس سے یقینا برا ہی ہو گا۔
مودی کے تیسری بار برسراقتدار آنے کے بعد بھارت میں موجود اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس خوف میں مبتلا ہیں کہ مودی اپنے ہندوتوا نظریے کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر ظلم و بربریت کا بازار گرم کرے گا۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں سے پہلے شہریت کے حقوق چھینے گئے تھے،اب یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ ان کے بنیادی زندگی کے حقوق بھی سلب کرلئے جائیں گے،بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کے اقتدار میں آنے کا یہ مطلب بھی واضح ہے کہ خطے میں امن و سلامتی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔ مودی سرکار نے دور اقتدار میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات بڑھائے اور اس بار امکانات ہیں کہ وہ اس حد سے آگے جائیں گے، مقبوضہ کشمیر جس کی خصوصی حیثیت مودی کے اقتدار میں ہی ختم کی گئی تھی ان کیلئے بھی مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے حالات مزید بگاڑ کی جانب سے جائیں گے۔