ڈبل شاعر

مسعود احمد ہمارے پیارے دوست ہیں۔ آپ جدید اردو شاعری کا معتبر حوالہ ہیں۔ آپ بینکار رہے ہیں بلکہ بے کار ہی رہے ہیں۔ سارا دن پیسے گنتے اور دیکھتے تھے اور دیکھ دیکھ کر ہی جی بھر لیتے تھے۔ ہاں البتہ کسی پالیسی یا لون سکیم میں یار دوستوں کو پھنسا کر بینک کا اور تھوڑا سا اپنا بھلا کر لیتے تھے۔ شروع شروع میں مسعود احمد اپنے آپ کو مسعود اوکاڑوی لکھاکرتے تھے۔ شاید ظفر اقبال کی موجودگی میں خود کو اوکاڑہ کا شناختی کارڈ ثابت کرنا چاہتے تھے۔ وہ تو بھلا کرے احمد ندیم قاسمی کا جنہوں نے مسعود احمد کو علاقائی و بلدیاتی حدوں سے نکال دیا اور مسعود اوکاڑوی کو مسعود احمد ہی رہنے دیا۔ ظفر اقبال یوں بھی اپنے بعد مسعود احمد کو اوکاڑہ کا ادبی وارث قرار دے چکے ہیں۔ مسعود احمد اشعار کو تو بے وزن نہیں ہونے دیتے مگر جس سائیڈ پر وہ اکیلے ہو جائیں وہ سائیڈ یا پلڑا بے وزن ہو جاتا ہے۔ وہ سائیڈ یا پلڑا چھٹانکوں، سیروں یا منوں کے حساب سے بے وزن نہیں ہوتا بلکہ ٹنوں کے حساب سے بے وزن ہو جاتا ہے۔ مسعود احمد کھانے کا الگ اور پینے کا علیحدہ سے خیال رکھتے ہیں۔ پینے کی حد تک صرف سادہ پانی ہی پیتے ہیں۔ سگریٹ اور حقے سے صدیوں پرانا بیر ہے۔ خوراک کا تو یہ حال ہے کہ کم کھاتے ہیں مگر کھاتے رہتے ہیں۔ کھاتے کھاتے چھ سات گز کی قمیص کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ دیکھنے والا سمجھتا ہے شاید دونوں ہاتھوں سے کھا رہے ہیں۔ جیسے قومی خزانہ کھایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ بینک کی پالیسی میں پینٹ کوٹ مع ٹائی لازمی قرار دے دیا گیا۔ لاہور سے لیکر اوکاڑہ تک کے تمام شاپنگ سنٹرز چھان مارے مگر ان کے ناپ کا کوئی پینٹ کوٹ نہ میسر ہوا۔ بالآخر ایک تجربہ کار موچی کو بلایا گیا اور ان کے ناپ کا ایک پینٹ کوٹ بنوایا گیا۔ مسعود احمد نے باقی ماندہ سروس بھابھی اور اسی اکلوتے پینٹ کوٹ کے ساتھ پوری کی۔ اس پینٹ کوٹ کو جب بھی مرمت کی ضرورت پیش آتی تو اسی موچی سے رابطہ کرنا پڑتا۔ ٹائی کے ماہر رسہ سازوں کی خدمات حاصل کیں اور آرڈر پر کئی ٹائیاں بنوائی گئیں۔ جوتے کا حال تھا کہ شہر بھر کے شوز سٹور پر ان کا بند جوتا تو کیا چپل تک ملنا محال تھا۔ بس مسعود احمد کے پاؤں میں سب کا پاؤں والی مثل سے کام چلایا جاتا رہا۔

مسعود احمد شاعری میں شاگرد پیشہ نہیں رہے البتہ کئی جونیئرز کی حوصلہ افزائی بھرپور کرتے ہیں۔ بعض جونیئرز کے لولے لنگڑے اشعار پر صرفِ نظر تو کر جاتے ہیں مگر انہیں اعلیٰ شاعر کا تاج پہنا کر ہی دم لیتے ہیں بلکہ دما دم مست قلندر تک جا پہنچتے ہیں۔ شاعری میں پیری مریدی پر یقین رکھتے ہوئے ظفر اقبال، اسلم کولسری مرحوم اور علی اکبر ناطق کو اپنا پیر گردانتے ہیں۔ گدی نشین تو نہیں ہیں البتہ ہر ادیب پر تکیہ کر لیتے ہیں۔

 

معاصرانہ چشمک کے حق میں نہیں ہیں اسی لیے شاعری کے تمام ”اڈوں“ پر حاضری دینے کو اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ مشاعروں کی صدارت بھی فرما لیتے ہیں۔ اگر صدارت نہ بھی دی جائے تو مہمانِ اعزاز یا مہمانِ خصوصی پر بھی اکتفا کر لیتے ہیں۔ یہ درویشی فقط انہی کو زیبا ہے وگرنہ تو دو تین مجموعوں کے شاعر مشاعرے کی صدارت سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے اور روٹھنے کو ترجیج دیتے ہیں۔

مسعود احمد ان تمام معاملات سے مبّرا ہیں۔ بعض احباب انہیں شاعر ماننے سے انکاری ہیں ان کا خیال ہے کہ ماضی میں یہ صاحب یا تو پہلوانوں کے امام رہے ہیں یا ”پلے داری“ کا کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعر وہ ہوتے ہیں جو نحیف الجسہ ہوں۔ دکھ درد کے مارے ہوں۔ مایوسی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو۔ رونے دھونے کو اپنا مقدر اور سیاہ بختی کو اپنی قسمت سمجھ بیٹھے ہوں لمبے لمبے بال ہوں۔ ان کے بال جوؤں کا مسکن نہ سہی مگر ان میں مٹی ضرور موجود ہو۔ رنگ برنگے زنانہ نما کپڑے اور چمکیلی ویسکوٹیں ضرور زیب تن کی ہوں۔ مسعود احمد کے ہاں ان چیزوں کا شدت سے قحط ہے۔ ان تمام چیزوں کی کمیابی کے باوجود مسعود احمد بلا کے شاعر ہیں۔ ان کے بزرگوں میں لکھنو سے تو کوئی نہیں اور نہ ہی لکھنوی تہذیب سے دور دراز کا واسطہ ہے مگر روزمرہ اور محاورہ مسعود احمد کے گھر کی باندی ہے۔ زومرہ اور محاورہ کے استعمال نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ مسعود احمد کی گفتگو کا لہجہ تو جالندھر کا ہے مگر کہیں کہیں پٹیالوی رنگ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ مسعود احمد کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی بزم میں کسی کو بور نہیں دیتے۔ چٹکلے اور لطیفے انکی گفتگو کا خاصا ہیں۔ وہ بھی بولتے ہیں مگر دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ مسعود احمد جدید لہجے کے نمائندہ شاعر ہیں اور اردو شاعری کا معتبر حوالہ ہیں۔