گندم سکینڈل میں حکومت کو کلین چٹ

ملک میں گندم کے بحران آنا اب معمول بن چکا ہے لیکن جس قسم کا بحران اس دفعہ آیا وہ ان سب میں ذرہ اس حوالے سے مختلف ہے کہ اس بار گندم تو تھی لیکن اس کی خریدار حکومت اپنی اعلان کردہ قیمت پر خریدنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ اس طرح بیچارہ کسان تو کہیں کا نہیں رہا اس کی پیدا کردہ گندم کے خریدار تو تھے لیکن اونے پونے۔ میں گزشتہ روز شہر سے باہر کسی گاؤں میں گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لوگ اڈے میں ٹرالیوں میں گندم کی بوریاں لوڈ کر کے کھڑے ہیں کہ کسی طرح بک جائے اور ان کے جاری اخراجات نکل آئیں۔ یقین مانیں 2000 سے 2500 روپے میں مجھے بھی کہا گیا آپ لے لیں بہر حال مجھے بتایا گیا کہ گندم کو کیڑا لگ جاتا ہے اسے سٹور کرنا اتنا آسان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ منافع کمانے کے نقطہ نظر سے اناج جو کہ ہر ایک کی ضرورت ہے کو سٹور کرنے سے باز رہا۔

اکثر ہم نے دیکھا کہ ملک گندم کے سنگین بحران کا شکار ہوا اور کئی لوگ آٹے کے حصول کے لئے لائنوں میں بھگدڑ مچ جانے سے ہلاک ہوئے۔ ماضی میں یہی خیال کیا جاتا رہا کہ گندم اضافی ہو تو ملک کے غذائی تحفظ کی اچھی صورتحال کی ضامن ہوتی ہے، مگر اس کو بغیر منصوبہ بندی کے درآمد کر لینا کسی طرح بھی درست نہیں یہ ملکی سا لمیت کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے ایک تو ہمارے کسان بیچارے اپنی گندم نہیں بیچ سکے دوسرا اگلے سال یہی کسان گندم کم رقبہ پر کاشت کریں گے اور ظاہر ہے اس سال والی گندم کو تب تک کیڑا لگ چکا ہو گا اور وہ قابلِ استعمال نہیں رہے گی اور جب کاشتکار گندم کم رقبہ پر کاشت کرے گا تو پھر لامحالہ اگلے سال گندم کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سال یہ سارے مسائل صرف اضافی گندم درآمد کرنے سے پیش آ رہے ہیں۔ اس کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تا کہ اس بحران کو پیدا کرنے والوں کی نشاندہی کی جا سکے۔

بڑے دکھ سے اس بات کا ذکر کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کمیٹی نے وہی رپورٹ دی جس کی روایت ماضی میں قائم ہوتی رہی ہے یعنی حیران کن طور پر کمیٹی کی رپورٹ نے نگران دورِ حکومت میں درآمد ہونے والی اضافی گندم کے ا سکینڈل سے نگران حکومت ہی کو کلین چٹ دے دی۔ ذمہ داروں کا تعین کچھ اس طرح کیا گیافوڈ سکیورٹی کے چار افسروںسابق وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی محمد آصف، سابق ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن اے ڈی عابد، فود سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر وسیم اور فوڈ سکیورٹی کے ڈائریکٹر سہیل ناقص منصوبہ بندی اور غفلت کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ اس سکینڈل میں ابتدائی طور پر مرکزی ذمہ داروں کے طور پر سامنے آنے والے سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور ان کی کابینہ کے ارکان کے کردار کا کوئی ذکر تک نہیں ہے، جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے اصل قصورواروں سے چشم پوشی کی ہے۔ کرپشن، مالی بددیانتی، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال سے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ بیچارے غریب کسانوں کو بہت مالی نقصان ہوا جن کی گندم کھیتوں کھلیانوں میں گل سڑ رہی ہے۔

جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں وہ اس معاشرے کا ناسور ہیں جنہوں نے کرپشن اور بے ایمانی سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ وطنِ عزیز کے اربابِ اختیار اس سے بالکل مخلص نہیں ہیں، اپنے کمیشن کے لئے مجرمانہ غفلت برتنا ملکی انتظامیہ کا اب ایک جاری معمول بن چکا ہے۔ سرکاری انتظامیہ کا ہر محکمہ اور شعبہ بری طرح گہن زدہ ہو کر ناکارہ ہو چکا ہے۔ 330 ارب روپے کے گندم سکینڈل جس کا قومی سیاست میں بڑا شور و ہنگامہ برپا رہا، کی تحقیقات میں محض وزارت کے چار افسران کو ملزم ٹھہرانا اور معطل کرنا نہ صرف قوم کے ساتھ مذاق اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے در حقیقت جرم کے اصل ذمہ داروں کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دلوانے کے بجائے جرم پر پردہ ڈالنے اور حقیقی ذمہ داروں کو بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نگران دورِ حکومت میں گندم اور آٹے کی قلت پر قابو پانے کی آڑ میں ملکی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کر کے الٹا قوم پر بڑا بوجھ ڈال دیا گیا۔ حسبِ روایت موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملی بھگت کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کو ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ ہوسِ زر کے مارے کچھ طاقتور افراد نے ناجائز دولت کمانے کے لئے پوری قوم کو بحران اور قلت دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ یہ واضح طور پر دوہرا قومی جرم تھا۔ ایک پوری قوم کو مصنوعی قلت کی اذیت اور آزمائش میں ڈالنے کا جرم اور دوسرا بلا ضرورت بڑے پیمانے پر مہنگی گندم درآمد کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا جرم۔ اتنے بڑے کھیل کی فراڈ اور دھوکے کی سہولت کاری محض کسی وزارت کے چند افسران ہر گز نہیں کر سکتے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اصل ذمہ داروں سابق نگران وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے کوئی سوال جواب تک نہیں کیا۔ ان سے بغیر پوچھ گچھ کئے تحقیقات کو شفاف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی نے روایتی طور پر تمام بوجھ کے لئے کمزور عضو کا ہی انتخاب کیا، جس کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی یہ انکوائری آئندہ کے لئے ایسے بحران سے بچانے کے لئے مثال کا کام کر سکتی ہے۔ جب یہ کمیٹی بنائی گئی تو اس حوالے سے وزیرِ اعظم نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہ سکینڈل کے تمام ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا لیکن اس کی رپورٹ نے قوم کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہاں کبھی انصاف نہیں ہو سکتا۔ یہاں دو قانون ہیں ایک غریب کے لئے اور ایک بااثر کے لئے۔خدارا ہم وطنِ عزیز کا بہت نقصان کر چکے ہیں اگر ہم اب ہی ہوش کے ناخن لے لیں اور اصل مجرموں کا تعین کر کے انہیں سزا و جزا کے عمل سے گزاریں تو شائد ممکن ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسی مثال قائم ہو جائے جس سے آنے والے وقتوں میں ہماری کوئی سمت متعین ہو جائے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جب تک اصل ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سزا و جزا کے عمل سے نہیں گزارا جاتا تو ملک میں یونہی کرپشن کا بازار گرم رہے گا اور قوم کو بحرانوں سے کبھی نہیں نکالا جا سکے گا۔