ایف آئی اے

پچھلے ہفتے بہت عرصے کے بعد مجہے راولپنڈی جانا پڑا، ایک ”طاقتور شخصیت“ نے ملنا چاہا تھا، دوران گفتگو ڈرتے ڈرتے میں نے ان سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی کر لی”آپ کو اپنے ادارے کی تنزلی کا کچھ احساس ہے؟“، وہ بولے”اگر ایسی بات ہے تو بطور ایک محب وطن قلم کار آپ کو بھی اس کی عزت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے“، میں ہنس پڑا، میں نے عرض کیا ”جے گل میرے تے آگئی اے تے بہتر اے تسی صلح ای کر لو“، پھر وہ بھی ہنس پڑے، پنڈی سے فراغت کے بعد میں اسلام آباد پہنچا، اس کے باوجود کہ ایف سکس میں میرا گھر ہے یہ شہر کبھی مجھے پسند نہیں آیا، یہ حکمرانی شہر ہے ہم فقیروں کا جی یہاں کیسے لگ سکتا ہے؟ ہم تتلیوں جگنوؤں، فاختاؤں، ہرنوں اور بلبلوں سے جی لگانے والے ہیں، سوروں، بندروں کتوں، سانپوں اور گدھوں کی پسند کا کوئی مقام ہمیں کیسے راس آسکتا ہے؟ 2018 میں عمران خان جب ایک انسان سے وزیراعظم بنے انہوں نے مجھے اپنا میڈیا ایڈوائزر بننے کے لئے کہا، میں نے یہ عہدہ قبول یا وصول کرنے سے اس لئے بھی معذرت کر لی مجھے اسلام آباد رہنا پڑے گا جو میرے لئے ممکن نہیں تھا، یہ ایک اداس شہر ہے چنانچہ میرا جب اداس ہونے کو جی چاہے میں دو چار روز کے لئے اسلام آباد آ جاتا ہوں، اس سے زیادہ میں اس شہر میں نہیں رہ سکتا، میں جب پاکستان میں ہوتا ہوں میرا زیادہ قیام لاہور میں ہوتا ہے، دنیا بڑی خوبصورت ہے، پاکستان بھی کسی سے کم نہیں، پاکستان کے وہ خوبصورت مقامات، خصوصاً کے پی کے، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے وہ خوبصورت ترین مقامات جو ایک خاص ”مافیا“ کے قبضے میں ہیں اور”بلڈی سویلینز“ کی وہاں رسائی نہیں ہے وہ اگر عوام کے لئے کھول دئیے جائیں اور عوام اپنی فطرت اور روایت کے مطابق وہاں گندگیاں نہ پھیلائیں، ادھر ادھر شاپر نہ پھینکیں، جگہ جگہ نہ تھوکیں، یقین کریں میں قدرت کی خوبصورتیاں دیکھنے کے لئے کبھی کسی اور ملک میں نہ جاؤں، ایک المیہ یہ بھی ہے پاکستان کی کچھ خوبصورت وادیاں دیکھنے کے لئے آپ کو باقاعدہ موت کے منہ سے گزرنا پڑتا ہے، ان وادیوں تک رسائی کے لئے ہمارا مواصلاتی نظام اگر ٹھیک ہوجائے، راستے کشادہ ہو جائیں، پروازیں شروع ہو جائیں، اور اس کے بعد سوشل میڈیا کی طاقت کو اپنی ان وادیوں کی خوبصورتیاں دکھانے کے لئے ہم استعمال کریں، خدا کی قسم ہمارا ملک سیاحت میں دنیا میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر لے، 2018 میں عمران خان جب وزیراعظم بنے، حلف اٹھانے سے دو روز پہلے انہوں نے مجھے یاد کیا میں جو بارہ پوائنٹس ان کے ”تبدیلی“ کے خواب کی تکمیل کے لئے لکھ کے لے گیا تھا ایک ان میں سیاحت کے شعبے میں انقلابی ترقی کا بھی تھا، میں نے عرض کیا تھا یہ شعبہ آپ اپنے پاس رکھیں، افسوس یہ شعبہ انہوں نے ایسے”لوٹے“ کے سپرد کر دیا تھا جو، اب استنجے کے قابل بھی نہیں رہا، عمران خان کی ذاتی توجہ و دلچسپی سے سیاحت میں کچھ نہ کچھ جان ضرور پڑی مگر وہ کارنامے نہیں ہو سکے جن کے بعد دنیا کو پاکستان کا اصل چہرہ دیکھنے کا موقع ملتا، میں اسلام آباد کی بات کر رہا تھا بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ایک بات اڈیالہ جیل سے بھی نکلی ہے، اب شاید اور کوئی بھی وہاں سے نکل جائے، اسلام آباد آنے کا ایک مقصد اپنے محترم بھائی احمد اسحاق جہانگیر (ڈی جی ایف آئی اے) سے ملاقات کرنا بھی تھا، ان کے صاحبزادے صحت کے حوالے سے ایک آزمائش میں مبتلا ہیں، مجھے ان کی خیریت معلوم کرنا تھی، میری اْن سے تفصیلی ملاقات ہوئی، ان کے صاحبزادے کی بیماری کے حوالے سے تفصیلات معلوم کرنے اور ان کے لئے دعا کے بعد کچھ سماجی، سیاسی اور تعلیمی موضوعات پر بھی بات ہوئی، میں نے ان سے کہا ”ویسے تو ہمارا ہر شعبہ ہر ادارہ مختلف اقسام کی تنزلیوں کا شکار ہے مگر پولیس اور ایف آئی اے کچھ زیادہ ہی بدنام ہیں، آپ ایک سینئر پولیس افسر ہیں، مختلف ادوار میں بے شمار اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، جنوری 2018 میں آپ کو بطور ڈی جی ایف آئی اے تعینات کیا گیا، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس سے قبل آپ اسی ادارے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم تعینات تھے، گو کہ بطور ڈی جی ایف آئی اے آپ کی تعیناتی کو اتنا عرصہ ابھی نہیں ہوا ہم آپ کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھائیں، ویسے بھی کسی کی خرابیوں یا کارکردگی پر کوئی سوال اٹھانے سے پہلے اپنی خرابیوں یا کارکردگی کو ضرور پیش نظر رکھ لینا چاہئے جو ہم نہیں رکھتے، اب اس حوالے سے مجھے ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آگیا، جنرل ضیا الحق کے دور میں شراب پر مکمل پابندی تھی، پولیس ناکوں پر روک کے لوگوں کے منہ سونگھتی تھی، ایک ناکے پر ایک سب انسپکٹر نے ہمارے دوست دلدار پرویز بھٹی کی گاڑی روکی اور انہیں گاڑی سے باہر آنے کا حکم دیا، دلدار بھٹی باہر آئے سب انسپکٹر نے ان سے کہا ”منہ سونگھا“، دلدار بھٹی نے کہا ”پہلے توں سونگھا“، سب انسپکٹر اپنی نظریں نیچی کر کے بولا”چل جا“، لہٰذا اب میں کسی کی کسی خرابی یا کارکردگی پر بات کرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے خوفزدہ ضرور ہوتا ہوں اگر آگے سے کسی نے مجھ سے وہی کہہ دیا جو دلدار بھٹی نے سب انسپکٹر سے کہا تھا میری کیا عزت رہ جائے گی؟ احمد اسحاق جہانگیر کے ماضی پر بھی کوئی بات کرنے یا ان سے ان کی کارکردگی پوچھنے کے بجائے میں نے اْن کی ترجیحات پوچھیں، میں نے ان سے پوچھا ”اپنے ادارے کی بدنامیاں کم کرنے کے لئے یا اسے درست سمت میں لانے کے لئے ان کے پاس کیا پلان ہے؟ خصوصا جو سیاسی مافیا اس ادارے کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے اْس سے بچاؤ کے لئے وہ کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا ”اس وقت ہماری خوش قسمتی یہ ہے محسن رضا نقوی کی صورت میں ایک ایسے وزیر داخلہ ہمیں ملے ہیں جو کام کرنا بھی جانتے ہیں کام لینا بھی جانتے ہیں، محض اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے انہیں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا، سیاست میں ان کا کوئی حلقہ نہیں، وہ پورے پاکستان کو اپنا حلقہ سمجھتے ہیں، ماضی میں کچھ ایسے وزیر داخلہ بھی تھے جو اہم ترین میٹنگز میں بھی اپنے حلقے کے لوگوں یا اپنے قریبی عزیزوں وغیرہ کو ایف آئی اے میں بھرتی کرنے کا پریشر ڈالتے تھے، موجودہ وزیر داخلہ کا ہر میٹنگ میں فوکس یہ ہوتا ہے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف اور جرائم پیشہ افراد کو قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ تکلیف کیسے دی جائے (جاری ہے)