اغیار! بس اغیار ہیں؟

خاصی پرانی بات ہے۔ دھیرے دھیرے آتش جوان ہو رہا تھا۔ گاؤں کی پُر فضا اور صاف شفاف فضا دیکھ کر تلور کے غول کے غول کہیں سے ہجرت کر آئے۔ موسم میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ واپس اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ہمارے سیاست دان مفاد پرستی کی فضا دیکھ کر پارٹی بدل لیتے ہیں۔ گاؤں کے باسیوں نے اس پرندے کا شکار شروع کر دیا۔ ہمیں بھی یہ شوق چرایا۔ ہم نے بھی دوستوں کے ہمراہ ایک جال لیا اور شکار کی سمت نکل گئے۔ ایک صاف زرعی جگہ دیکھ کر جال پھیلا کر اوپر ہلکی ہلکی مٹی ڈال دی۔ ایسے ہی جیسے ہم سالہا سال سے اپنی خواہشات، ضروریات اور جائز سہو لیات پر ڈال رہے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین اس معاملے میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ بہرحال کچھ ہی دیر بعد چند تلور آئے۔ انہیں دیکھ کر اور پرندے بھی آ گئے۔ دانہ چگتے چگتے وہ تلور اور پرندے (جن میں کچھ جیالے، پٹواری، یوتھیئے اور فصلی بٹیرے بھی تھے) جال تک آ گئے۔ ہم نے پوری تاب کے ساتھ جال کھینچا (ہم کونسا مرزا غالب کے تلامذہ میں سے تھے جن کے قویٰ مضمحل ہو گئے ہونگے) تو تمام پرندے جال میں پھنس گئے۔ تلور کے علاوہ دیگر لوٹے پرندے یعنی کوا، طوطا، لالی، اُلو بھی شامل تھے۔ ہم نے حلال پرندوں کو موقع پر ہی ذبح کیا اور دیگر حرام خور پرندوں کو انکے پر، چونچیں، انتڑیاں اور کھال نوچنے کیلئے وہیں چھوڑ دیا اور پس شجر ہو کر تماشا دیکھنے لگ گئے۔ ان پرندوں نے پل بھر میں صفایا کیا اور اڑ گئے۔ کووں نے کہیں اپنی سرداری جما لی۔ طوطوں نے حزب اختلاف کی ٹھان لی۔ اُلو چینی بلیک کرنے کے درپے ہو گئے۔ لالیوں نے سینیٹ کے ٹکٹ کے رولے ڈال لیے۔ گلہریاں کھاد اور گندم بلیک کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ ہم عوامی ذبح شدہ پرندے لیکر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ تمام پارٹیاں اپنی اپنی سیاست چمکانے، اقربا پروری کو فروغ دینے، اپنی جائیدادیں بنانے، لوٹ کھسوٹ کا مال اکھٹا کرنے، بینک بیلنس میں اضافہ کرنے میں جُتی ہوئی ہیں۔ ہم عوام ان جال میں مکمل پھنس چکے ہیں۔ یہ ہمیں ذبح کرتے ہیں۔ ہمارا خون چوستے ہیں۔ ہماری کھال اُتارتے ہیں اور خود سردار بن جاتے ہیں۔ ہمیں کیا ملا؟ بھوک وہ بھی صدیوں کی بھوک، پیاس؟ جو اب دریائے فرات بھی نہیں بجھا سکتا۔ بیماری؟ جس کیلئے کوئی مسیحا نہیں۔ بلکہ مسیحا بھی ڈاکو۔ جہالت۔ تعلیم تو ان کے بچوں کیلئے ہے۔ بجلی اس قدر مہنگی کہ ہماری قسمت کے اندھیروں میں اضافہ ہو گیا۔ گیس؟ جو صرف ان کے محلوں میں ہے۔ پانی؟ جو آلودگی سے بھر پور ہے۔ ادویات؟ جو قوت خرید سے بہت آگے چلی گئی ہیں اور ان کا علاج بیرون ملک میں ہو رہا ہے۔ حیرت ہے اور صد حیرت ہے۔ ایک ہم ہیں کہ انہیں پوجے جا رہے ہیں۔ انہیں مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ انہیں رہنما سمجھ رہے ہیں۔ کیسا وقت آ گیا ہے؟ کیسا دور آ گیا ہے؟ ہوش و حواس رکھتے ہوئے، عقل و فکر و آگہی رکھتے ہوئے۔ ہم راہزنوں کو رہبر سمجھ رہے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں میں خود دھول جھونک رہے ہیں۔ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اصل ہم خود اپنا، اپنی موجود اور آنے والی نسل کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔

قائداعظمؒ اپنے آخری ایام میں زیارت میں مقیم ہیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اپنے وفد کے ساتھ قائداعظمؒ کی عیادت کو جاتے ہیں ان کے واپس روانہ ہونے کے بعد قائداعظمؒ فاطمہ جناح سے کہتے ہیں: فاطی! تم جانتی ہو یہ لوگ کیوں آئے تھے؟ فاطمہ جناح لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں تو قائداعظمؒ دکھ بھرے لہجے میں کہتے ہیں یہ لوگ یہ دیکھنے کیلئے آئے تھے کہ میں کتنے دن اور زندہ رہوں گا“۔ یعنی قائداعظمؒ محمد علی جناح کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے، جن کو لیکر قائداعظمؒ کو تشویش بھی تھی اور کچھ لوگوں کے مکروہ کرداروں کا علم بھی ہو گیا تھا خصوصاً ایوب خان کے حوالے سے قائداعظمؒ کے احکامات کو رد کر دیا گیا تھا۔ 8 جون 1949ء کو روس کے صدر جوزف سٹالن نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو دورہ روس کی دعوت دی تھی۔ لیاقت علی خان نے اس دورے کی حامی بھی بھر لی تھی مگر پھر اچانک سب کچھ بدل گیا اور لیاقت علی خان مئی 1950 میں امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ حالانکہ فطری طور پر پاکستان کیلئے روس کا دورہ زیادہ مفید تھا تو پھر لیاقت علی خان نے پاکستان کے قومی مفادات پہ سمجھوتا کیوں کیا؟ یا انہیں اس کیلئے مجبور کیا گیا؟ اور آپ کی معلومات کیلئے بتا دوں اسی دورے میں لیاقت علی خان امریکہ کے بعد پہلے برطانیہ اور پھر کینیڈا بھی گئے تھے پاکستان کو بھارت سے الگ ایک سرزمین کے طور پر قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ پاکستان کو آزادی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اس لیے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی تاج برطانیہ کی باقیات نے پاکستان پہ قبضہ کر لیا اور وہ قبضہ آج تک برقرار ہے یہ قبضہ شاید کچھ دہائیاں اور بھی برقرار رہتا اگر جنرل باجوہ اس قدر عجلت میں رجیم چینج نہ کرتا۔

رجیم چینج سازش نے پاکستان کی تاریخ کی تمام سازشوں کو عیاں کر دیا، اور آج قوم یہ بھی جان چکی ہے کہ قابض قوتوں نے قائداعظمؒ کی تقریر بھی سنسر کی تھی، پاکستان کا ٹوٹ کر بنگلہ دیش بننا بھی کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ سب کچھ پوری اور جامع منصوبہ بندی سے کیا گیا۔ جو سیاسی لیڈر مقبول ہوا، اسے مار دیا گیا اور قیام پاکستان سے آج تک کسی وزیر اعظم کو عہدے کی مدت پوری کرنے نہ دی گئی۔ جبکہ انڈیا کو انگریز نے واقعی آزاد کر دیا تھا۔ انڈیا کا پہلا وزیر اعظم ہی پندرہ سال تک رہا اور ہندوستان کی سمت درست کر گیا۔ 75 سال بعد بھی ہماری قسمت نہیں بدلی۔ اگر یہ موقع نکل گیا اور ہم نے کچھ مثبت بدلاؤ نہ کیا، تو اگلی تین نسلیں اسی عذاب سے گزریں گی۔ جس عذاب سے پچھلی پانچ نسلیں گزری ہیں۔ پاکستان اس وقت باقاعدہ امریکہ اور برطانیہ کی غلامی میں ہے۔ صرف چہروں کا فرق ہے۔ باقی سب وہی ہے۔ حقیقی آزادی کیلئے بہترین اور مخلص لیڈروں کا ساتھ دینا ہو گا، نہیں تو پھر جنہوں نے قائد اعظم اور فاطمہ جناح پہ رحم نہیں کیا، وہ آپ پہ رحم کیوں کریں گے؟۔