الوداعی کالم!

قارئین کرام آج براہ راست ہیں آپ سے براہ راست مخاطب ہوں، گزارش یہ ہے کہ میرے لیے کالم کا سلسلہ جاری رکھنا بوجوہ ممکن نہیں رہا ہے۔ آپ حضرات سے جو اپنائیت آمیز توجہ ملی وہ شکرگزاری کے ساتھ یاد کی خوبصورت سوغات ہے، نوجوان ایڈیٹر نجم ولی خان نے چھوٹے بھائیوں کی طرح برادرانہ کرم نوازی کا سلسلہ جاری رکھا کالموں کی اشاعت کے ذمہ دار عزیزی عارف اقبال بھٹی نے برخودارانہ خیال رکھا عارف اقبال بھٹی روزنامہ مشرق میں میرے ساتھی محمد اقبال بھٹی مرحوم کے صاحبزادے ہیں ان دونوں کا بھی قلبی گہرائیوں سے شکریہ، میرے کالم کو اخبار میں اچھی جگہ دی گئی اس پر انتظامیہ کا بھی شکریہ۔

جہاں تک نئی بات کے کالموں کے چمنستان کا تعلق ہے یہ ان شاء اللہ مہکتا رہے گا۔ تمام کالم نگاروں کا بھی شکریہ، جن کی علمی دانش تجزیہ کی گہرائی، معلومات کی وسعت کی کرنوں سے پھوٹتی روش سے کسب فیض اور رہنمائی کا موقع ملا، بہت پیارے بھائی مصطفیٰ کمال پاشا، جناب ساجد حسین ملک، آصف عنایت، ذوالفقار علی شاہ اور کرمل سلیم (سب کے نام لکھنا ممکن نہیں) عجیب اتفاق ہے ایک مدت بعد کچھ دوستوں کا ایک ادارے میں دوبارہ اجتماع ہوگیا برادر عزیز نجم ولی خان، زاہد رفیق، ناصرشیرازی، نوید چودھری اور یہ ناچیز روزنامہ دن میں ایک ساتھ تھے۔

تاشقند کا راز فاش کرنے کے دعویٰ سے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور اقدامات کے حوالے سے بدقسمتی سے منفی پہلو ہی مشاہدے میں آئے جو کالم نگار دوست بھٹو سے والہانہ تعلق رکھتے ہیں ان سے معذرت۔

1969ء میں فاروق عثمانی مرحوم کے روزنامہ ”تاجر“ راولپنڈی میں بطور سٹاف رپورٹر وادی صحافت میں قدم رکھا جنرل ایوب خان کے آخری دور سے تادم تحریر ملک کے سیاسی منظرنامہ میں بہت سے رنگ ہی نہیں بدلتے دیکھے بلکہ ملک کا جغرافیائی نقشہ بھی بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس دوران قدرت نے جن حقائق کا مشاہدہ کرایا، نوک قلم پر لانا یوں مشکل ہے اول تو دوہرانے کا کوئی فائدہ اس لئے نہیں کہ بہت سے اذہان کیلئے قبول کرنا مشکل ہوگا اور ناگوار بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ 14 اگست 1947ء سے تادم تحریر مجھ کوتاہ نظر کو وہ جمہوریت نظر نہیں آئی جس کی تعریف کتابوں میں درج ہے۔ کہیں پڑھا تھا۔ پاک ٹی پاؤس میں ایک معروف ادیب نے قیام پاکستان کے ابتدائی ایام تھے اچانک کہا، جیسے حالات ہیں مجھے ڈر ہے یہ ملک نہیں چلے گا، فیض احمد فیض بھی موجود تھے برجستہ کہا ”اور مجھے یہ ڈر ہے یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا“۔

ماضی کے بہت سیاستدانوں سے قریبی تعلق رہا جن میں مولانا عبدالستار خان نیازی، نوابزادہ نصراللہ خان، عبدالولی خان، نواب اکبر بگٹی، شیرباز خان مزاری، سردار شوکت حیات، یوسف خٹک، خواجہ صفدر، سردار بہادر خان، حامد سرفراز، خواجہ رفیق، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا مٖفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، پیر پگاڑا اور پروفیسر غفور، جبکہ سید ابوالاعلیٰ مودودی، سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی، خواجہ خیرالدین، ایم حمزہ، چودھری محمد حسین چٹھہ، سردار بہادر خان سے ایک سے زائد بار مگر مختصر ملاقاتیں رہیں۔

راولپنڈی صدر میں واقع مشہور ہوٹل میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی پریس کانفرنس میں شرکت کی جس میں ”وعلیکم السلام مغربی پاکستان“، کہہ کر علیحدگی کا اعلان کیا تھا، پھرڈھاکہ جاکر یہ بات کی تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی سے بات چیت کیلئے شملہ جانے سے قبل مختلف طبقات کے نمائندہ افراد کی طرح کشمیری صحافیوں سے بھی مری میں ملاقات کی تب میں میر وعظ محمد احمد کے ہفت روزہ تحریک مظفر آباد کا ایڈیٹر تھا۔

کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کی کسک آج بھی برقرار ہے، 1971-72ء میں تین نوجوان صحافی دوست پینے پلانے کے چکر میں پڑ گئے یہ ”چکر“ اکثر ”اس بازار“ کا راستہ دکھایا کرتا ہے۔ جس میں جانے کیلئے جیب خوب بھری ہوئی ہونی چاہئے جہاں بڑے بڑے نواب اور رئیس زادے گنگلے ہو جایا کرتے ہیں لیکن یہ جیب خالی ہونے پر جاتے اور بھری جیب کے ساتھ واپس آتے۔ فقراپن اس قدر کہ لکشمی چوک سے ٹیکسالی تک تانگہ کا دوآنے کرایہ بھی نہ ہوتا اکثر چھ آنے مجھ سے ادھار لے کر جاتے اپنی تینوں دوستوں سے پینے پلانے کی حاجت پورا کرتے ڈھائی تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارتے اور کسی سے 25، کسی سے 30 اور کسی سے 40 روپے لے کر آجاتے جو مجھے بتاتے اور میں ایک کاغذ پر لکھ کر دراز میں ڈال دیتا تاہم میرے چھ آنے فوراً ادا ہو جاتے تھے ۔ تنخواہ ملنے پر وہ مجھ سے حساب پوچھ کر اپنی اپنی دوست کو واپس کر آتے۔ کافی عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان میں ایک جو شوبز رپورٹر تھا اس نے اپنی دوست مختلف خود اس کے بقول ”قاتلانہ“ انداز کی تصاویر حسن وجمال کے قلابے ملا کر اپنے میگزین میں شائو کردیں اور وہ میگزین رائل پارک اور سٹوڈیوز میں فلمسازوں کے دفاتر میں رکھ آیا۔ یہ کوشش جلد ہی رنگ لائی اس کی دوست کو فلموں کی آفر ہو گئی۔ کچھ اس نے خود وہ ”محنت“ کی جو فلمی دنیا میں مصروف ہے اور ملک کی نامور اداکارہ بن گئی۔

این ایچ نقوی رات کو اخبار میں میرے ساتھ کام کرتا دن میں این سی اے میں ہوتا آٹھ دس دن بعد گھومتے گھامتے وہاں پہنچ جاتے ایک روز کیفے ٹیریا میں تیسری ٹیبل پر ایک لڑکی پر نظر پڑی تو چونک گیا ۔ نقوی سے کہا یہ جو نیلی شرٹ میں بڑی ماڈرن سی لڑکی بیٹھی ہے یہ…بات کاٹ کر شوخی سے بولا بلاؤں میں نے کہا پوری بات سنو، اس میں مجھے اپنے ایک دوست کی بہت زیادہ شباہت لگ رہی ہے۔ نقوی نے کہا اگر تمہارا دوست اس بازار جاتا تھا اور وہاں کسی سے خاص دوستی تھی تو یہ تمہارے دوست کی بیٹی ہے میرے ساتھ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں فائنل میں ہے، یہ اکثر کہتی ہے میرا باپ بھی جرنلسٹ تھا اور میں بہت کرب سے سوچتا رہا لمحوں کی عیاشی کے عوض کتنے لوگ اپنی بیٹیاں اس بازار کی رونق بنادیتے ہیں، اس بات سے پندرہ سولہ سال قبل میرا دوست فوت ہوچکا تھا۔ شاید وہ بیٹی سے لاعلم رہا ہو، باقی دو دوستوں نے بھی منشیات کی لت میں خود کو تباہ کیا۔

سیاستدانوں سے ملاقات کے حوالے سے یادوں کا دریچہ کھلا تو بیگم نسیم ولی خان سے ملاقات بھی یاد آگئی جو گلبرگ میں بیگم عابدہ حسین کے گھر ہوئی ۔ ان سے بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی باتیں ہوئیں بیگم نسیم ولی خان سے بتایا کہ جب میرا ولی خان سے رستہ ہوا وہ جیل میں تھے جیسا کہ اب حیدرآباد (سندھ ) جیل میں ہیں میرے والد ان سے جیل میں جاکر ملے تھے اور رہائی کے بعد نکاح کی رسم ادا ہونی تھی میں نے پوچھا ایک شخص جو جیل میں ہے اس سے شادی کرتے وقت آپ کو ڈر نہیں لگا وہ بہت ہنسیں اور کہا بھائی، وہ ڈکیتی، چوری، فراڈ یا قتل کے کیس میں جیل میں نہیں تھے بلکہ سیاسی مقدمہ تھا جیسا آج بھٹو نے بنایا ہوا ہے۔

نواب اکبر بگٹی سے بلوچستان کے سابق ہوم سیکرٹری آصف فصیح الدین وردگ کے ہمراہ ہلٹن ہوٹل (ایواری) میں اخبارسے فارغ ہو کر صبح تک طویل نشست جاری رہتی اس لمحے وہ صرف اکبر بگٹی ہوتے اور ان سے اس انداز اور اس طرح کی گفتگو ہوتی تھی جو دوسرے وقت جس کا نواب اکبر بگٹی سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

میں پاکستان کا واحد صحافی ہوں جس نے ان سے آخری بات تب کی جب وہ غار میں تھے اس کے تین روز بعد ان پر حملہ ہوگیا تھا، یہ بات چیت جمہوری وطن پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالرؤف ساسولی نے سیٹلائٹ فون پر کرائی۔ بگتی صاحب ماضی کی باتیں لے بیٹھے ادھر عبدالرؤف ساسولی مجھ پر زوردے رہے تھے بات مختصر کریں وہاں چارجنگ کا مسئلہ ہے۔