آج یوم والدین ہے

کل میں کسٹمز کے اعلیٰ افسر اپنے محترم بھائی فیض چدھڑ کے والد محترم کی وفات پر تعزیت کے لئے اْن کے گھر گیا، وہاں بہت سے اعلیٰ سول، فوجی اور پولیس افسران کے ساتھ ساتھ کچھ اچھے لوگ بھی موجود تھے، جناب فیض چدھڑ نے میرا ان سے تعارف بطور ایک دانشور کروایا، مجھے خوشی ہوئی انہوں نے میرا تعارف بطور ایک صحافی کے نہیں کروا دیا ورنہ لوگ ”لفافہ“ تلاش نکال لیتے، وہاں موجود ایک صاحب نے اپنی طرف سے مجھے شاید مولانا طارق جمیل سمجھ لیا، وہ مجھ سے کہنے لگے ”والدین کی عظمت کا کوئی واقعہ بیان فرمائیں“، میں نے عرض کیا ”صرف دو رشتے ہیں جن میں یک طرفہ محبت بھی چل سکتی ہے، ورنہ تمام رشتے کچھ لو کچھ دو یا باہمی محبت و احترام سے چلتے ہیں“، یک طرفہ محبت ایک اللہ اپنے بندوں سے کرتا ہے کہ اس کے بندے اس کے احکامات پر پوری طرح عمل کریں نہ کریں، وہ محبت کرتا رہتا ہے، خصوصاً رزق کے معاملے میں ہم نے کبھی نہیں سنا کوئی بھوکا سویا ہو، بے شمار نعمتیں اس کے علاوہ بھی جاری و ساری رکھتا ہے کہ ”تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے“، تو نے عطا کیا میں نے بھلا دیا، مگر تو نے پھر بھی مجھے نہیں بھلایا، دوسری ”یک طرفہ محبت“ والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے، آپ ان سے محبت کریں نہ کریں ان کی خدمت کریں نہ کریں، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اپنی اولاد سے محبت کرتے رہتے ہیں، وہ کوئی بہت بدقسمت اور بدبخت شخص ہوگا جس کے والدین کو اس سے کوئی گلہ شکوہ یا شکایت اپنی زبان پر لانا پڑ جائے ورنہ عموماً والدین یہ نہیں کرتے، وہ صرف محبت اور دعا کرتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، پچھلے دنوں مجھے ایک وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا، ہمارے ایک معروف اداکار فیصل قریشی کی والدہ بیگم افشاں قریشی فرما رہی تھیں ”میں نے اپنے بیٹے ( فیصل قریشی) کے لئے بہت دعائیں کیں، میں نے دعا کی اللہ اسے امیتابھ بچن جتنی شہرت دے، مگر میں اس کے لئے یہ دعا کرنا بھول گئی، اللہ اسے ایک اچھا انسان اور اچھا بیٹا بھی بنائے“، اپنے اس گلے شکوے یا شکایت کی انہوں نے کوئی تفصیل نہیں بتائی مگر ان کا یہ کرب صاف ظاہر ہو رہا تھا ان کا بیٹا ان کی عزت یا خدمت نہیں کرتا، بیگم افشاں قریشی نے فیصل قریشی کی پرورش جن مشکل حالات میں کی اس کے نتیجے میں فیصل قریشی کو صرف کہنے کی حد تک نہیں حقیقی معنوں میں اپنی ماں کے پاؤں دھو دھو کے پینے چاہئیں تھے، اللہ کرے یہ توفیق اپنی ماں کی زندگی میں ہی اسے مل جائے ورنہ اس کے نتائج اسے دنیا و آخرت دونوں مقاموں پر بھگتنا پڑیں گے، میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت ترین انسان ہوں میں اپنے والدین کے آخری دم تک ان کے ساتھ رہا، کوئی تیرہ برس قبل میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا چودھری شجاعت حسین تعزیت کے لئے ہمارے گھر آئے مجھ سے پوچھنے لگے ”آپ کی والدہ آپ کے ساتھ ہی رہتی تھیں ؟“، میں نے عرض کیا ”وہ میرے ساتھ نہیں میں ان کے ساتھ رہتا تھا“، ماں کے انتقال کے بعد میری دنیا میری زندگی سب کچھ ویران ہو گیا، ہمارے ہاں عموماً کسی کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو کہا جاتا ہے ”اس کا گھر اجڑ گیا“، اصل گھر والدین کے انتقال پر اجڑتا ہے، اس کے بعد تقریباً آٹھ برس قبل میرے والد محترم کے انتقال پر میری زندگی کے سارے رنگ فق ہوگئے، زندگی یقیناً اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے مگر والدین کی موجودگی میں نعمت ہے، میں اکثر سوچتا ہوں اللہ نے انسان کی زندگی میں اگر صبر پیدا نہ کیا ہوتا کم از کم میں اپنے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اپنے والدین کے انتقال پر میں جتنا غم سے نڈھال تھا ان کے ساتھ ہی قبر میں اتر گیا ہوتا، اب ان کی وفات کے بعد اللہ نے ایک بہت بڑی نعمت کے طور پر یہ توفیق مجھے بخشی ہوئی ہے میں جس طرح ان کی زندگی میں صبح دفتر جانے سے پہلے ان سے مل کے ان کی قدم بوسی کر کے جاتا تھا اب یہ کمی صبح ان کی قبروں پر روزانہ حاضری سے پوری کرتا ہوں، ہمارے لوگ جب کسی مصیبت آزمائش سے پریشان ہوتے ہیں وہ مختلف مزاروں درباروں پر جاتے ہیں، اس کی اپنی برکت ہے، مگر میں جب کسی مشکل یا آزمائش سے دو چار ہوتا ہوں میں اپنے والدین کی قبروں پر چلے جاتا ہوں، وہاں بیٹھ کر حال دل عرض کرتا ہوں، وہاں میں اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہوں میری ماں قبر سے نکل کر مجھے اپنے سینے سے لگا کے یہ کہہ رہی ہیں ”جا پتر تینوں رب دیاں رکھاں“، یہ دعا وہ اپنی زندگی میں بھی ہر لمحہ ہر پل مجھے دیا کرتی تھیں، دوسری دعا وہ مجھے اکثر یہ دیتی تھیں ”میرا پْتر مٹی چکے سونا ہووے“، خدا کی قسم ایسے ہی ہو رہا ہے، کوئی کام شروع کروں اللہ اس میں اتنی برکت ڈال دیتا ہے مٹی سونا بن جاتی ہے، اس کے بعد میں اپنے والد کی قبر پر چلے جاتا ہوں، یہاں بھی میری یہی کیفیت ہوتی ہے جیسے ابا جی قبر سے باہر نکل کے میرے ساتھ آ کے بیٹھ گئے ہیں اور میری ”کنڈ“ ( کاندھے ) پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کے مجھے یہ دعا دینے لگے ہیں ”پتر تینوں کدی تتی ( گرم ) ہوا نہ لگے“، یہ دعا وہ اکثر اپنی زندگی میں مجھے دیتے تھے، میں اس دعا پر ازرہ مذاق ان سے کہتا ”ابو جی یہ دعا گرمیوں کے لئے تو ٹھیک ہے، سردیوں میں آپ یہ دعا دیا کریں ”جا پتر تینوں ٹھنڈی ہوا نہ لگے“، میری یہ بات سن کر وہ قہقہہ لگاتے اور کہتے ”اوئے پْتر پیو ( باپ ) دے سامنے دانشوریاں نئیں جھاڑی دیاں“، باپ کے سامنے بھلا کون دانشور ہوتا ہے ؟ باپ کے سامنے تو بڑے بڑے بادشاہ ”غلام“ ہوتے ہیں، ہم تو پھر ”فقیر“ ہیں، ہم صرف اپنے اللہ کے ”فقیر“ ہیں، میرے والدین یہ دعا بھی اکثر دیتے تھے ”اللہ سوہنا سدا اپنا محتاج رکھے بندیاں دا محتاج نہ کرے“، یہی دعا میں بھی اکثر کرتا ہوں، ہمارے کچھ ”زمینی خْداؤں“ نے یہاں جو ماحول، ظلم، ناانصافی، کسی کو معاف نہ کرنے اور انتقام لینے کا قائم کر رکھا ہے صرف اللہ ہی انسان کو اس سے محفوظ فرما سکتا ہے، یوم والدین پر آخر میں والدین کی نعمت سے محروم یہ یتیم و مسکین قلم کار دعاگو ہے جن کے والدین حیات ہیں اللہ انہیں اچھی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور جن کے والدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولادوں کو ایسے نیک اعمال کرنے کی توفیق دے جو ان کے والدین کے لئے بخشش اور نجات کا ذریعہ بن جائیں۔