ہیجڑہ گردی

تاریخ میں خواجہ سراؤں کا ذکر کثرت سے آتا ہے چونکہ ان کو عورتوں کے لئے بے ضرر سمجھا جاتا ہے اس لئے پرانے زمانے میں بادشاہ اور امراء انہیں اپنے محلوں میں رکھتے تھے جہاں وہ بادشاہوں کے گھر کی خواتین، لونڈیوں اور ان کے خاندان کی دیگر عورتوں پر نگرانی رکھتے تھے۔ قدیم دور کی عرب سلطنتوں چین، یونان، روم، یورپ اور بازنطینی سلطنت کے علاوہ سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان میں بھی یہ روایت عام تھی۔ اس کے علاوہ دیگر اور کئی قدیم تہذیبوں میں بھی خواجہ سراؤں کا یہ استعمال عام تھا۔ اس سلسلے میں بہت سے مردوں کو زبردستی یا ان کے والدین کی رضا مندی سے خواجہ سرا بنایا جاتا تھا، جب کہ بعض دفعہ اپنے دشمنوں کو بھی توہین سے دوچار کرنے کے لئے انہیں خواجہ سرا میں تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ بعض اوقات والدین اپنے کسی ایک لڑکے کو خواجہ سرا میں تبدیل کر کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے اور یوں اس سے نہ صرف ان کو ایک مستقل آمدن ملتی تھی بلکہ ان لڑکوں کی زندگی بھی زیادہ محفوظ اور پر آسائش ہو جاتی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ یا عرب کی قدیم تہذیبوں میں خواجہ سراؤں سے مختلف کام لئے جاتے تھے۔ منگ دور میں چین کے سوئی خاندان کے زمانے تک لوگوں کو سزا کے طور پر خواجہ سرا بنایا جاتا تھا۔ منگ دور کے چین میں خواجہ سراؤں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ جنہیں بادشاہ نے بھرتی کر رکھا تھا اپنے لئے بے ضرر سمجھتے ہوئے بعض اوقات بادشاہ ان کو بڑی ذمہ داریاں بھی سونپ دیتے تھے۔ بازنطینی حکمرانوں کے دور میں بھی بڑی تعداد میں خواجہ سراؤں کو گھریلو ذمہ داریوں کے لئے رکھا جاتا تھا۔ ہندوستان میں بھی خواجہ سراؤں کے ذریعے کام لینا عام تھا۔ خاص طور پر شاہی درباریوں اور نوابین کے محلوں میں ان کا عمل دخل بہت زیادہ تھا۔ بعض دولت مند گھرانے بھی اپنے گھروں میں خواجہ سراؤں کو نوکر رکھنا پسند کرتے تھے تا کہ ان کے گھریلو کام بھی ہوتے رہیں اور ان کی عورتیں بے راہ روی سے محفوظ رہیں۔ محلوں اور درباروں میں انہیں بہت قابلِ اعتماد سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ لونڈیوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے تھے اور محل کی عورتوں کی حفاظت بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہوتے تھے۔ وہ پیامبر ، قاصد، نگران، خدمت گاراور محافظ کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ بعض کو تو بادشاہ اپنی مشاورت کے لئے رکھتے تھے۔ آج کے مخنث مغلیہ عہد کو اپنی برادری کے سنہرے ترین دور سے تعبیر کرتے ہیں اور اسی حوالے سے دیگر ناموں کے مقابلے میں خواجہ سرا کھلانا پسند کرتے ہیں۔

بچپن میں کبھی کوئی ہیجڑہ ہمارے گھر مانگنے آتا تو ہم نادانی میں اسے مذاق کرنا شروع کر دیتے تو ہماری والدہ محترمہ پیچھے سے آواز دیتیں کہ اس کی مدد کر دو انہیں کچھ نہیں کہتے ان کی بد دعا بڑی بری ہوتی ہے، یہ اللہ کے نیک لوگ ہوتے ہیں۔ ہم بچپن میں دیکھا کرتے یہی زرق برق مخلوق کبھی تو مانگنے لگتی اور کبھی ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانا شروع کر دیتی۔ ذرہ بڑے ہوئے تو اندازہ ہوا کہ مردانہ آواز میں گانا گاتی، دعائیں دیتی، مردوں کی طرح شیو بنا کر عورتوں کی طرح سجتی، سنورتی، اس مخلوق کو ہمارے معاشرے نے بہت سے نام دے رکھے ہیں۔ عام لوگ اسے ہیجڑا، کھدڑا، تیسری دنیا، مخنث، زنخا اور تعلیم یافتہ سوسائٹی اسے ٹرانس جینڈر کا نام دیتی ہے جب کہ عرفِ عام میں انہیں خواجہ سرا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ تو نہیں معلوم ہیجڑے کا لفظ کہاں سے آیا لیکن خسرے کا لفظ خواجہ سرا سے نکلا لگتا ہے جو بگڑ کر یا کثرتِ استعمال سے خسرہ بن گیا یعنی خواجہ سرا کا مخفف۔

ان کے بے ضرر ہونے کی وجہ سے ان کی ڈیوٹی زیادہ تر زنان خانوں میں لگائی جاتی تھی جہاں ہر سازش میں شریک ہوا کرتے تھے۔ بیگمات کی باہمی اور ان کی بادشاہوں کے بارے میں سازشوں میں ان کا بڑا ہاتھ ہوا کرتا تھا۔ وہ زمانے تو گئے اب نہ شاہی محلات نہ ملکائیں اور شہزادیاں مگر اب ہمارے اربابِ اختیار نے ان سے لوگوں کو رسوا کرانے کا کام لینا شروع کر دیا ہے۔ وہ مخلوق جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ بڑی معصوم اور بے ضرر ہے آج ان کے تیور ہی نرالے ہیں، یہ سب کچھ یا تو وہ خود سے کر رہے ہیں یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور ہے، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ دنوں ہیجڑے ہجوم کی صورت میں ایک تھانے پر حملہ آور ہوئے پولیس کے سپاہیوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پائے گئے۔ وہاں انہوں نے جس قسم کی ہلڑ بازی اور طوفانِ بدتمیزی بپا کیا خدا کی پناہ۔ ابھی اس کی باز گزشت تھمی نہیں تھی کہ ایک اور واقعہ رونما ہو گیا چند ہیجڑوں نے پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو روک کر انہیں نہ صرف زخمی کیا بلکہ انہیں سرِ عام رسوا کرنے کی کوشش بھی کی۔ اوپر بیان کئے دونوں واقعات میں خسروں نے ایک تو جرم سرزد کئے اور پھر سوشل میڈیا پر رونق میلے والی ویڈیو بھی اپ لوڈ کر دیں جس سے بالخصوص نوجوان بہت محظوظ ہوئے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان خسرہ گردوں نے جناب رؤف حسن اور پولیس کے جوانوں کی عزت تالیوں اور ٹھمکوں میں اڑا دی۔ اس چیز کو سنجیدہ لینا چاہئے اسے ابھی سے نہ روکا گیا تو آنے والے وقتوں میں اس خسرہ گردی سے کوئی عزت دار محفوظ نہیں رہے گا بلکہ مخالفوں کو توہین سے دوچار کرنے کے لئے ہیجڑوں کو چند روپوں کے بدلے میں خسرہ گردی کے لئے خرید لیا جایا جائے گے۔