یوم تکبیر، جب کلثوم نواز نے چاغی پر قومی پرچم لہرایا

خاوند کے ساتھ ستی ہونے والی برصغیر کی عورت اگر خاوند کیلئے جان پر کھیل جائے، سنگلاخ چٹان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہ کرے تو یہ اس خطے کی مشرقی عورت کی روایت کا تسلسل ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں خاوند کوزندان سے رہائی دلانے کی جدوجہد میں جسمانی وذہنی تکالیف، ریاستی تشدد اور خود اسیری کا شکارہونے کا پہلا باب بیگم نصرت بھٹو نے رقم کیا ایرانی نژاد بیگم نصرت بھٹو پر شاہ رضا پہلوی کے ایران کے کلچر کے گہرے اثرات تھے۔ مشرقیت کا اظہار ساڑھی زیب تن ہونے سے ہوتا تھا جو بچپن اور جوانی کے کچھ ماہ وسال بمبئی گزارنے کا سبب تھے اس تمہید کا مقصد یہ کہ ان کا عوامی ہجوم کے ساتھ گھل مل کر تحریک چلانا عزم وہمت اور جرأت وبہادری کا اظہار تو ہے مگر تعجب کی گرہیں کھولنے والا واقعہ نہیں ہے۔
ایسی تاریخ کادوسرا باب اپنے خاوند عبدالولی خان کی رہائی کیلئے جدوجہد کی صورت بیگم نسیم ولی خان سے رقم کیا اس کی بیگم نصرت بھٹو کے مقابلے میں انفرادیت یہ ہے کہ بیگم نسیم ولی خان کا تعلق پشتون کلچر سے ہے جہاں عورت کا مردوں کے ساتھ اختلاط کی روایت نہیں ہے۔

اس تاریخ کا تیسرا باب بیگم کلثوم نواز نے رقم کیا۔ ایک مکمل گھریلو خاتون، جس نے خاوند کی سرکاری وسیاسی زندگی میں کبھی کسی بڑے خواتین کے اجتماع سے بھی خطاب نہیں کیا، خاتون اول کی حیثیت میں بھی ننانوے عشاریہ پانچ فیصد گھریلو خاتون ہی رہیں، لیکن جب خاوند پر ابتلا کا دور آیا تو گھر کی دہلیزیوں پار کی جیسے شیر کی اپنے کچھار سے نکلتی ہے پھرچشم فلک نے دیکھا کہ وہ لمحوں میں ایک بڑے مقبول عوامی لیڈر کے مرتبہ پر پہنچ گئیں اور جب تک ”جیل کاپھاٹک ٹوٹے گا نواز شریف چھوٹے گا“ کا عوامی نعرہ حقیقت نہیں بن گیا ان کی جدوجہد جاری رہی۔

ان سطور کا مقصد ان خواتین کی جدوجہد کا احاطہ کرنا نہیں ہے بلکہ بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کے دوران 28مئی کے حوالے سے ان کا لاہور سے چاغی تک تین دن اور تین راتوں کا ایک بڑی ریلی کے ساتھ مسلسل عوامی مارچ کی یاد کا 28مئی قریب آنے پر ذہن میں بیدار ہو جاتا ہے۔ اس دن،رات کے مسلسل سفر نے بہت سے مردوں کو تھکاوٹ کا شکارکردیا تھا لیکن بیگم کلثوم نواز اور ان کے ہمراہ بیگم تہمینہ دولتانہ، بیگم عشرت اشرف، بیگم نجمہ حمید، اور سینکڑوں خواتین کے جوش وخروش میں کمی محسوس نہیں ہوئی۔

بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو بھارتی عوام ہی نہیں بھارت کے حکمران بھی آپے سے باہر ہوگئے نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے باقاعدہ دھمکیاں شروع کردیں ”پاکستان، آزاد کشمیر کا علاقہ فوراً خالی کرکے ہمارے حوالے کرے“ اور بھارتیوں کو تب ٹھنڈ پڑی جب وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ سمیت تمام عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اور صدر کلنٹن کی جانب سے پانچ ارب ڈالر ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے بھارت کو جواب دینے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور نعرہ تکبیر کی گونج میں 6ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔

لاہور کے صحافی دوست جانتے ہیں بیگم صاحبہ سے ایک قریبی تعلق بن گیا تھا انہوں نے میری تین چارتجاویز کو پذیرائی بخشی ایک روز مریم اور کیپٹن صفدر کی موجودگی میں تجویز پیش کی کہ اگر صحت اور ہمت ساتھ دے تو لاہور سے چاغی یا کوئٹہ سے چاغی جاکراس پہاڑی پر قومی پرچم آویزاں کریں جہاں ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا بیگم صاحبہ نے کہا ہم خود بھی یہی سوچ رہے تھے پھر انہوں نے کیپٹن صفدر سے کہا کہ خواجہ سعدرفیق اور دوسروں سے مل کر پروگرام کو حتمی شکل دیں۔

خیال آیا کہ 28مئی کے ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے بہت کچھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنے گا کیوں نہ اس حوالے سے اس موقع کی مناسبت سے بیگم کلثوم نواز کے تاریخی عوامی مارچ اور چاغی پر پرچم کشائی کی رومداد کی کچھ نمایاں جھلکیاں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں۔ جس سے پاکستان کی تاریخ میں پہلے طویل ترین عوامی مارچ کے کچھ خدوخال اجاگر ہو سکیں۔

چولستان کے بعد بیگم کلثوم نواز کا دورہ چاغی اس لحاظ سے منفرد تھا کہ ہزارواں کا یہ سفر جہاں ایک عورت کے عزم وہمت کی ایک ولولہ انگیز داستان ہے۔ وہیں یہ 12اکتوبر 1999ے کے بعد مسلم لیگ کی ایک بڑی سیاسی پیش رفت کا نشان بن گیا جس میں اس کی پنجاب انتظامیہ کی بے تدبیری اہم رول ادا کیا۔ لاہور سے ڈیرہ غازی خان تک پولیس اور ایلیٹ فورس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے بند کرکے، شرکاء قافلہ کے ساتھ ہاتھا پائی، دھکم پیل اور لاٹھی چارج سے ایسی فضا پیدا کردی کہ چاغی میں قومی پرچم لہرانے اور خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی امداد کیلئے جانے والا یہ قافلہ ایک طویل سیاسی مظاہرہ بن گیا جسنے پورے دودن پنجاب کے ایک بڑے حصے میں ہلچل مچائے رکھی۔ بڑے شہروں، حتیٰ کہ قصبوں، دیہات اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں بھی رکاوٹوں، بندشوں اور پولیس کی موجودگی کے باوجود لوگ بیگم کلثوم کے استقبال کیلئے اگرچہ فاصلوں پر مگر گھنٹوں کھڑے رہے تاہم حکومتی رکاوٹیں، موسم کی سختیاں اور طویل فاصلے کی صعوبتوں کا اعصاب شکن احساس کوئی بھی چیز اس قافلہ سخت جان کی راہ نہ روک سکی۔

26مئی کو دن گیارہ بجے بیگم کلثوم نواز کی قیادت میں قافلہ روانہ ہوا تو بہت سے اندیشوں اور خدشات کے سائے بھی ساتھ تھے، ماڈل ٹاؤن میں پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری تعداد کے باعث یوں لگتا تھا شاید قافلے کی روانگی ہی ناممکن بنادی جائے ایک روز قبل خاتون مجسٹریٹ نے بیگم کلثوم نواز کو پروگرام ملتوی کرنے کا حکومتی پیغام دیا تھا اور راستے کی متوقع صعوبتوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن بیگم کلثوم نواز کے فولادی عزوارادے کے سامنے یہ تمام رکاوٹیں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئیں۔

روانگی سے قبل کارواں کی سلامتی کیلئے دوبکروں کا صدقہ دیا گیا اور حافظ اسعد عبید نے پاکستان کی سلامتی، عوام کی خوشحالی، اسلام کی سربلندی اور بیگم کلثوم نواز کے مشن کی کامیابی کیلئے دعا کرائی، ماڈل ٹاؤن سے قینچی، چونگی امرسدھو، جنرل ہسپتال، یوحنا آباد اور مصطفیٰ آباد سمیت راستے میں چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے لوگ پولہس رکاوٹیں توڑ کر نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آجاتے۔ ماڈل ٹاؤن سے معطل ارکان اسمبلی یٰٖسین وٹو، چوہدری عبدالغفور، پرویز ملک، برجیس طا، میاں عبدالستار، محمود احمد خان، حاجی نواز اور حاجی اشرف تک ساتھ گئے۔ جبکہ معطل ارکان قومی اسمبلی بیگم تہمینہ دولتانہ، صفدر رانانذیر احمد خان، معطل ارکان پنجاب اسمبلی خواجہ سعد رفیق، ملک ریاض، شاہد بٹ، کے پی کے سے پیر صابر شاہ، اقبال ظفر جھگڑا، کراچی کی خاتون رہنما طوبیٰ درانی، شعبہ خواتین مسلم لیگ کی مرکزی صدر بیگم عشرت اشرف اور صوبائی صدر بیگم نجمہ حمید، اورتین سوسے زائد مرد وخواتین آخیر تک ہم رکاب رہے۔ جبکہ کیپٹن صفدر نے داماد سے زیادہ بیٹا بن کر ساتھ نبھایا، قصور میں سابق صوبائی وزیر رانا اقبال خان، معطل ایم پی اے ملک رشید اور یوتھ ونگ قصور کے چیئرمین ایم اختر نے سینکڑوں افراد کے ساتھ استقبال کیا۔ جو پولیس کی رکاوٹیں توڑکر سہیل آباد چوک پہنچے تھے لوگوں کو ڈنڈے مارکر دور بھگانے پر چودھری صفدر رحمن اور عبداللہ نے شدید احتجاج کیا ایک پولیس آفیسر سے چودھری صفدر رحمن کی تلخ کلامی ہوگئی جس کے انتہائی جارحانہ انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی لمحے چودھری صفدر رحمن پر تشدد کرسکتا ہے تاہم میرے ساتھ روزنامہ جنگ کے عرفان نذیر نے بیچ میں پڑ کر اور اپنا تعارف کروا کر بیچ بچاؤ کرادیا۔ عارف والا میں سادہ کپڑوں میں پولیس والے کارکنوں سے ہاتھا پائی کرتے رہے ایک اہلکار کی کارکنوں نے پٹائی کردی پولیس نے کارکنوں پر ڈنڈے برسا کر اسے چھڑایا، بورے والا میں نزدیکی مساجد میں نماز جمعہ پڑھ کر آنے والوں کو بھی باہر نکلنے سے روک دیا گیا قافلہ روانہ ہونے تک یہ لوگ محبوس رہے ان میں سے بہت سوں نے بیگم کلثوم نوازشریف کے حق میں نعرہ بازی شروع کردی۔ بیگم کلثوم نے بورے والا میں معطل رکن قومی اسمبلی سید شاہد مہدی کی رہائش گاہ پر مختصر قیام کیا یہاں معطل ایم پی اے میاں نوید طارق نے کارکنوں میں لنچ بکس تقسیم کیے، کھڈیاں خاص میں قافلے کو ٹھہرنے کی اجازت نہ دی گئی مگر مسلم لیگ اور ایم ایس ایف کے کارکنوں نے بیگم کلثوم کی گاڑی کو زبردستی روک کر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ تلونڈی میں خراب سڑک کے باعث زبردست گردوغبار کے باوجود بڑی تعداد میں موٹر سائیکل سوار نوجوان دورتک ساتھ چلتے رہے۔ حجرہ شاہ مقیم میں والہانہ استقبال ہوا اور بڑی تعداد گولے چلائے گئے۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ پاکپتن میں بیگم کلثوم نواز نے چوک جمال پہنچیں تو پولیس  نے تمام رکاوٹیں زبردستی بند کرادیں اور تمام راستے روک دیئے اس پر قافلہ حد سے شاہ چوک روانہ ہو گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا پولیس نے بہت سے کارکنوں کو ایک احاطہ میں بند کررکھا ہے بیگم کلثوم کی آمد کا سن کر انہوں نے اندر سے نعرہ بازی شروع کردی۔ بیگم کلثوم گاڑی سے اترکر اس احاطے کے پھاٹک پر گئیں اور زبردستی گیٹ کھلواکر انہیں رہا کرا لیا۔ وہ اس وقت موجود رہیں جب تک اسسٹنٹ کمشنر اور ایس ایس پی کی موجودگی میں مقامی جنرل سیکرٹری نے کیپٹن صفدر کو تمام کارکنوں کی رہائی کی تصدیق نہیں کر دی۔ وہاڑی میں بیگم تہمینہ دولتانہ کے شوہر جناب زاہد واہلہ نے سینکڑوں افراد کے ساتھ والہانہ استقبال کیا پولیس نے ریلوے لائین کی دوسری جانب شہری آبادی کی ناکہ بندی کررکھی تھی تاہم دورتک لوگ مکانوں کی چھتوں پر نعرے لگاتے رہے، وہاڑی سے قافلہ مخدوم رشید پہنچا تو مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ زبردست استقبال کیا اس موقع پر آتش بازی بھی کی گئی۔ پٹاخے چلائے گئے۔ سعید چوہان کی فیکٹری میں بیگم کلثوم کے ساتھ جاوید ہاشمی، حافظ اقبال خاکوانی، خواجہ سعد رفیق اور دیگر نے خطاب کیا۔