پاکستان میں اہل صحافت کو ڈرانے دھمکانے کے لئے ”اہل حماقت“ جس طرح کے قانون یا بل پاس کروا رہے ہیں میں فن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ طلعت حسین کی وفات پر لکھتے ہوئے بھی خوفزدہ ہوں کہیں ”اہل حماقت“ میری اس تحریر کا بھی برا تو نہیں مان جائیں گے کہ یہ ہم ”زندہ لوگوں“ پر لکھنے کے بجائے مرنے والوں پر لکھتا ہے”اسے اٹھا لو“، طلعت حسین ایک بہادر آدمی تھے، وہ ڈراموں میں اپنے لئے کردار بھی ایسے ہی پسند فرماتے تھے، وہ ایک انتہائی سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے، حقیقی زندگی میں انہیں کوئی ہنستے یا قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھتا یوں محسوس ہوتا وہ ”ڈرامہ“ کر رہے ہیں، شاید اسی لئے معین اختر نے ان کے بارے میں لکھا تھا ”فنی لحاظ سے میرے اور ان کے راستے الگ الگ ہیں“، معین اختر سنجیدہ رہنے کی صرف ایکٹنگ ہی کر سکتے تھے، طلعت حسین بھی کھل کر مسکرانے یا قہقہہ لگانے کی صرف ایکٹنگ ہی کر سکتے تھے، وہ لوگوں سے زیادہ ملتے ملاتے بھی نہیں تھے، وہ اپنی دنیا میں مست رہنے والے عجیب سے ایک ملنگ تھے، انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا تھا، اس مرحوم ادارے نے بڑے بڑے فنکار پیدا کئے، طارق عزیز بھی اْن میں شامل تھے، طارق عزیز کی وفات سے چند روز پہلے کسی محفل میں میری ریڈیو پاکستان کے حوالے سے ان سے بات ہوئی ایک سرد آہ انہوں نے بھری کہنے لگے ”یار توفیق ایہ وی تے اک بوہت وڈا دکھ اے ریڈیو پاکستان ساہڈی زندگی وچ ای مر گیا اے“، ایک زمانے میں ہم حبیب اللہ روڈ لاہور میں رہتے تھے، یہ علاقہ ایمپرس روڈ کے بالکل قریب تھا جہاں ریڈیو پاکستان کی عمارت ہے، اس زمانے میں اس عمارت کے قریب سے گزرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا تھا یہ پاکستان میں رونقوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، آج یہ عمارت ایک ”بھوت بنگلے“ جیسی لگتی ہے، ہمارے بے شمار ادارے تنزلی کا شکار ہوئے مگر ریڈیو پاکستان کی تنزلی کا ذاتی طور پر دکھ مجھے اس لئے بھی ہے زمانہ طالب علمی میں اکثر اس ادارے میں جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تھا، اس کے ایک پروگرام ڈائریکٹر اسلام شاہ مجھے اکثر کسی نہ کسی پروگرام، مباحثے، مذاکرے یا مشاعرے میں بلا لیا کرتے تھے، مجھے یاد ہے اس پروگرام کا ہمیں سو روپے یا شاید سوا سو روپے معاوضہ بھی چیک کی صورت میں ملتا تھا، تب میرا بینک اکاؤنٹ تو کوئی ہوتا نہیں تھا چیک ضائع ہو جاتے تھے مگر میرے لئے یہی خوشی بہت ہوتی تھی میری آواز لوگ سن رہے ہیں اور اس سے بھی بڑی خوشی یہ ہوتی تھی بے شمار مشہور فنکاروں اور گلوکاروں سے وہاں میری ملاقات ہوجاتی تھی، روحی بانو، ثروت عتیق، عظمی گیلانی، غیور اختر، قوی خان گلوکار غلام عباس، پرویز مہدی، ریشماں، تصور خانم، ثریا خانم کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا، ہمارے پرانے زمانوں میں جتنے گلوکاروں اور فنکاروں کو بڑا نام اور مقام ملا اس میں بہت بڑا کردار ریڈیو پاکستان کا تھا، ہندوستان کے ساتھ ہماری جو جنگیں ہوئیں ہمارے اس دور کے ”ڈھول سپاہیوں“ کے جذبے اور حوصلے بلند کرنے کے لئے جو ترانے نورجہاں، نسیم بیگم، عنائت حسین بھٹی، مسعود رانا، شوکت علی اور منیر حسین نے گائے وہ سب ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے، ایک جنگ پاکستان کے دشمن ملک سے ہماری افواج لڑ رہی تھیں دوسری جنگ ہمارا ریڈیو پاکستان بھارتی نشریاتی اداروں سے لڑ رہا تھا، ہمارے پنجابی کے ایک بہت بڑے شاعر اختر کاشمیری مرحوم نے تو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں باقاعدہ ایک ترانہ لکھا ”چوٹھ بولنی ایں چوٹھیئے آکاشوانئیے“، ”کاشوانی“ ایک ہندوستانی ریڈیو کا نام تھا جو دوران جنگ پاکستان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کرتا تھا، میں اکثر اس بات پر بہت افسردہ ہوتا ہوں اب ہم صرف اپنوں کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں، ممکن ہے مستقبل قریب میں اپنے دشمن سے لڑنے کا سارا کام ہم اپنے کھسروں کے سپرد کر دیں، جذبوں محبتوں مروتوں نغموں اور ترانوں والا دور اب ختم ہوگیا ہے، کیا اب کوئی یہ لکھ سکتاہے”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے“، کوئی اگر یہ لکھے گا سو بار سوچے گا اس سے اس کی ساکھ تو متاثر نہیں ہوگی؟، یا اب کوئی یہ لکھے گا ”اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں“؟، البتہ یہ لکھنے میں شاید کوئی آڑ محسوس نہ کی جائے ”میرے رقبے تمہارے لئے ہیں“، سب کچھ ان ہی کا ہے، ہم بنیادی طور پر ناشکرے لوگ ہیں، ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے انہوں نے اپنی زمین پر قائداعظم کو پاکستان بنانے کی اجازت دے دی ورنہ ہم ابھی تک ہندوستان میں ہی شاید رل رہے ہوتے، یہ کالم میں نے طلعت حسین کے انتقال پر لکھنا تھا میری سوچ بھی کہیں اور منتقل ہوگئی، البتہ اس کالم میں ”ریڈیو پاکستان مرحوم“ کا ذکر میں طلعت حسین کی روح راضی کرنے کے لئے کر رہا ہوں کہ یہ ادارہ ان کا اول و آخر عشق تھا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا ریڈیو پاکستان نے ان کی پرورش کی، میں طلعت حسین کے اْس فن کا عاشق ہوں جو ریڈیو پاکستان سے پروان چڑھ کے سر چڑھ کے بولا، بے شمار ڈراموں میں ان کے کردار بہت یادگار و لازوال تھے، ڈرامہ سریل ”ہوائیں“ میں ان کے کردار کی مماثلت ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے آخری ایام سے تھی، اس ڈرامے کی آخری قسط میں طلعت حسین کو پھانسی دے دی جاتی ہے، ڈرامے میں دی جانے والی پھانسی کا لوگوں کو اْتنا ہی دْکھ ہوا تھا جتنا دکھ حقیقت میں ذوالفقار علی بھٹو کو دی جانے والی پھانسی کا ہوا تھا، یہ ڈرامہ سریل ہمارے ممتاز ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کی بیگم فرزانہ ندیم سید (مرحومہ) نے لکھی تھی، یہ سریل اْتنی ہی مقبول ہوئی جتنی ہمارے امجد اسلام امجد کی ڈرامہ سریل ”وارث“ یا ہمارے عطا الحق قاسمی کی مزاحیہ ڈرامہ سریل ”خواجہ اینڈ سن“ مقبول ہوئی، میں اکثر سوچتا ہوں ہمارے سیاسی حکمرانوں کو صرف ایک ادارے کے ناز نخرے ”اٹھانے“ سے کوئی فرصت اگر مل جائے تو اپنے آرٹ اور کلچر کا بھی کچھ سوچ لیں، خصوصا ڈرامے کے لئے ایک ایسی اکیڈمی یا ادارہ ہی سرکاری طور پر بنا دیں جو نہ صرف فنکاروں کی بلکہ ان ڈرامہ رائٹرز کی بھی تربیت کا کچھ اہتمام کرے جو اپنے اپنے گھروں کی کہانیاں ڈراموں کے لئے لکھ کے معاشرے کو بگاڑ کے آخری مقام پر لے آئے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا رشتوں کی عزت قدرو قیمت ہی جاتی رہی، بے حیائی ہی بے حیائی رہ گئی، لکھنے والوں کو کوئی شرم آتی ہے نہ ان میں کام کرنے والوں کو کوئی آتی ہے، اور تو اور ہم دیکھنے والوں کو بھی نہیں آتی، یہ صرف میرا دکھ نہیں، طلعت حسین کا بھی یہی دکھ تھا، عظمی گیلانی کا بھی یہی دکھ ہے جو آسٹریلیا سے واپس پاکستان آنے کا تصور اس لئے بھی نہیں کرتیں کہ معاشرہ بے حیا ہوچکا ہے اور اس میں ایک اہم کردار ہماری ڈرامہ انڈسٹری کا بھی ہے (جاری ہے)