شہباز شریف: ایک جادوگر

شہباز شریف کو اگر آپ محض نواز شریف کا چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں توآپ انصاف نہیں کرتے۔ شہباز شریف نے خود کو ایک وفادار بھائی ہی نہیں ایک زبردست ایڈمنسٹریٹر، ایک ویژنری لیڈر اور بہترین سیاستدان بھی ثابت کیا ہے۔کون نہیں جانتا کہ بد خواہ ربع صدی سے نون میں سے شین نکلنے کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سارے تو ایسے ہیں کہ خود ان کی جماعتوں سے پورے کے پورے حروف تہجی نکل گئے لیکن اگر کوئی اپنے بھائی کی محبت اور وفا کے دائرے سے نہیں نکل سکا تو وہ شہباز شریف ہے۔ شہباز شریف نے حضرت یوسف سے لے کر چوہدری شجاعت تک کے بھائیوں کی کہانیوں سے اس رشتے پر اٹھے اعتبار کو بحال کیا ہے۔ نوے کی دہائی کے آخر میں جب شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تب سے ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے بغاوت کردیں گے۔ اس بغاوت کے لئے پرویز مشرف کے بعد قمر جاوید باجوہ کی پیش کشیں بہت پرکشش تھیں یعنی اپنے بھائی کی قیمت پر وزارت عظمیٰ مگر شہباز شریف نے اسے ہمیشہ ایک ٹھوکر سے اُڑا دیا۔ جب نواز شریف، پرویز مشرف جیسے دیو کی قید میں تھے تو انہیں جدہ کے محلات میں پہنچانے والا شہباز شریف ہی تھا اور اسی طرح قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی جیل سے اپنے پچاس روپے کے اشٹام کے جادو سے انگریزوں کے دیس پہنچانے والا بھی یہی۔ شہباز شریف حقیقت میں پرانی کہانیوں کا وہ ہیرو ہے جو مشکل میں پھنسے پیاروں کو ہر مرتبہ بچا کے لے آتا ہے۔ اگر شہباز شریف نہ ہوتا تو آج نواز شریف بھی نواز شریف نہ ہوتا جس نے تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کا تاج پہنا۔
شہبازشریف کی جادوگری صرف وفاداری میں نہیں ہے حالانکہ وفاداری بھی ایک ایسا قیمتی عنصرہے جو عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو اپنی بہن کا وفادار نہیں رہا تھا اور پرویز الٰہی اپنے بھائیوں سے بڑھ کے بہنوئی شجاعت کا۔ یہ جادوگری محبت کے ساتھ ساتھ محنت کی بھی ہے۔ نوے کی دہائی کے آخر میں پنجاب کو شہباز شریف کی صورت میں ایک ایسا ایڈمنسٹریٹر ملا جس نے محنت، دیانت اور رفتار کے نئے معیار متعارف کروا دئیے۔ آج کے پنجاب سے شہباز شریف کے منصوبے نکال دئیے جائیں تو پیچھے کچھ لنگر خانے بچتے ہیں اورکچھ کٹے وچھے، ہاں، پرویز الٰہی کی ایمرجنسی کو استثنیٰ حاصل ہے۔ آج لاہور میں اورنج لائن ٹرین ہے یا لاہور کے ساتھ ساتھ ملتان، راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو بس تو یہ شہباز شریف کی ہی دی ہوئی ہے۔ آج اگر لوڈشیڈنگ میں بہت کمی ہو چکی ہے تو اس کا کریڈٹ بھی شہباز شریف کے پنجاب میں برق رفتاری سے لگائے ہوئے بجلی کے کارخانوں کو جاتا ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے لاکھوں، کروڑوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل دیں۔ دانش سکول سے غریب خاندان کے ہونہار بچوں کی زندگیوں میں انقلاب لائے۔ شہبازسپیڈ کو محسن نقوی نے بھی فالو کیا اور اب مریم نواز بھی کر رہی ہیں۔ جو لوگ شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں کبھی بھی شامل رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں امانت اور دیانت کتنا بڑا اور اہم بنیادی اصول ہے۔ شہبازشریف ایک ویژنری لیڈر ہے۔ وہ آنے والے دور کی ضروریات کو جانتا اور پہچانتا ہے۔ اس کے منصو بے بتاتے ہیں کہ وہ کم از کم ایک سو برس آگے دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف محض ایک ایڈمنسٹریٹر ہے، وہ سیاستدان نہیں ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس سے بڑا سیاستدان ہی کوئی نہیں ہے۔ سیاستدان کہتے ہی فہم وفراست سے راستہ نکالنے والے کو ہیں۔ سیاستدان کبھی ہٹ دھرم نہیں ہوتا اور کبھی ٹکر نہیں مارتا۔شہباز شریف بطور وزیراعظم چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ ایک طرف بڑا بھائی ہے جس کے ساتھ بہت سارے ظلم اور بہت سارے زیادتیاں ہوئی ہیں۔ ایسے بہت سارے لوگ خود نواز لیگ کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں موجود ہیں جو بھائی کو بھائی سے لڑوانا چاہتے ہیں مگر شہباز شریف نے اپنے بھائی کے اعتماد کو ایک رتی برابر بھی مجروح نہیں ہونے دیا۔ لوگ پارٹی صدارت بارے قیاس آرائیاں کر رہے تھے، ارے بھائی، جو وزارت عظمیٰ بھائی کے لئے چھوڑ دے اس کے لئے پارٹی صدارت کیا شے ہے۔ شہباز شریف نے کبھی اپنے بھائی کا سیاسی اور جماعتی اثر کم نہیں ہونے دیا بلکہ اسے ہمیشہ بچانے اور بڑھانے کے لئے کردارادا کیا۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم ایک زیرک سیاستدان کی طرح اپنے اتحادیوں کو بھی سنبھال رکھا ہے یعنی یہ دوسرا محاذ ہے جس پروہ کامیاب ہے۔ جیسے ہی کسی اتحادی کو شکایت ہوتی ہے شہباز شریف کسی جن کی طرح حاضر ہوتا ہے۔ اس کی بات سنتا ہے۔ ان کے مسئلے حل کرتا ہے۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی یہ خوبی شہباز شریف کے سوا کسی دوسرے میں نہیں، میں نے کہا کسی بھی دوسرے میں نہیں چاہے وہ اڈیالہ میں مقیم ہے یا ایوان صدرکا رہائشی۔ تیسرے، شہبازشریف نے ایک ساتھ بہت ساری گیندوں کے ساتھ کھیلنے والے جادوگر کی طرح مقتدر حلقوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ آج مقتدر حلقوں کوملک کو بچانے اور آگے لے جانے کے لئے شہباز شریف کا کوئی متبادل نظر ہی نہیں آتا۔ مجھے ایک پرانا واقعہ یاد کرنے اور اس کی ایک اہم وضاحت کرنے دیجئے کہ جب جولائی 2018 میں نواز شریف اور مریم نواز کو لاہور ائیرپورٹ پر گرفتار کیا گیا تو شہباز شریف اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ کینٹ میں ہی موجود تھا مگر کیا شہباز شریف نے وہ حماقت کی جو عمران خان نے جیل جانے کے بعد کی۔ عمران خان نے اپنے بچے یہودیوں کے پاس رکھے ہوئے ہیں اور کارکنوں کے بچوں کو یہاں مروا دیا۔ آج بہت ساروں کو شہباز شریف کی فہم و فراست کا معترف ہونا چاہیے اگر وہ انصاف سے کام لیں۔
آج شہباز شریف کہتا ہے کہ اس نے کشکول توڑ دیا ہے تو یقین نہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو ایشئن ٹائیگر بنا سکتا ہے۔ بھلا جس لیڈر نے، ایک کم فہم اور کم عقل کے آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کے بعد، ایک ایٹمی طاقت کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہو تو وہ اسے اقتصادی قوت کیوں نہیں بنا سکتا۔ یہ شہباز شریف ہی کی محنت ہے کہ سٹاک ایکسچینج نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ یہ کہاجاتا تھا کہ جب ایک مرتبہ اشیاء مہنگی ہوجائیں تو وہ سستی نہیں ہو سکتیں مگر ہم یہ معجزہ بھی گاڑیوں سے مرغیوں تک میں دیکھ رہے ہیں۔چین سے متحدہ عرب امارات، ایران سے سعودی عرب تک ہر جگہ شہباز شریف کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔چند شاہ دو لہ کے چوہوں کے سوا، جن کے سروں پر تعصب اورنفرت کے آہنی خول چڑھے ہوئے ہیں، ہر کوئی اس جادوگر پر یقین رکھ رہا ہے کہ وہ ہتھیلی پر سرسوں جما کے دکھا دے گا اور اس نے ماضی میں ایسا بہت بار کر کے دکھایا بھی ہے خاندان کو جیل سے اقتدار میں لانے سے ترقیاتی منصوبوں کے جادو راتوں رات جادو دکھانے تک۔ ہمارا یہ جادوگر آزمود ہ ہے، قابل اعتماد ہے۔