اقتصادی صورتِ حال۔۔۔۔۔۔بہتری کے آثار

یہ اَمر باعثِ اطمینان ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتِ حال میں بہتری کی کچھ حوصلہ افزا ء خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ قومی پیداوار بالخصوص زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تو مہنگائی اور اشیائے صَرف کی قیمتوں میں کچھ نہ کچھ کمی بھی ہو رہی ہے۔ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے ماحول بھی بہتر ہو رہا ہے۔ وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف متحدہ عرب امارات کے ایک روزہ دورے پر ابو ظہبی تشریف لے گئے جہاں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النیہان سے ان کی ملاقات ہوئی جو بہت حوصلہ افزا رہی۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں میں دو طرفہ تعلقات بشمول سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون پر گفتگو ہوئی۔ وزیرِاعظم نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ شراکت داری اور متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں توانائی، پورٹ آپریشنز، غذائی تحفظ، مواصلات، معدنیات، بینکنگ اور مالیاتی سروسز کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا تو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النیہان  نے پاکستان میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی۔ وزیرِ اعظم نے ابو ظہبی میں متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں کے مختلف وفود سے ملاقاتیں کیں اور پاکستان اور یو اے ای کی آئی ٹی کمپنیوں کے درمیان شراکت داری پر راؤنڈ ٹیبل سیشن سے بھی خطاب کیا۔

وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، معدنیات، نوجوانوں کو با اختیار بنانے، برآمدات میں اضافے، صنعتوں کی ترقی اور دیگر شعبوں کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے، ہمیں محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر نے اپنے والد کی طرح مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ہم متحدہ عرب امارات سے قرض نہیں چاہتے بلکہ ان سے مشترکہ سرمایہ کاری اور تعاون چاہتے ہیں۔ ہمارا عزم ہے کہ متحدہ عرب امارات میں موجود اپنے بھائیوں کے تعاون سے پاکستان کی معیشت کی ہیئت کو مکمل طور پر بد ل دیں۔ وزیرِ اعظم  نے کہا کہ میں نے اپنی حکومت کے اڑھائی ماہ کے دوران زیادہ وقت آئی ٹی کے شعبے کے فروغ، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اپنے نوجوانوں کو با اختیار بنانے، بر آمدات بڑھانے، صنعت اور دیگر شعبوں کو ترقی دینے پر صرف کیا ہے۔ ہم نے متحدہ عرب امارات کو ماضی میں مختلف شعبوں میں تعاون فراہم کیا۔ اسی طرح ہم اب اماراتی قیادت سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عوام کو تربیت دیں اور ہماری ترقی میں ہاتھ بٹائیں۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا متحدہ عرب امارات کا دورہ اور امارات کے صدر کی طرف سے پاکستان میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی یقینا ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے جس سے ملک میں اقتصادی صورتِ حال میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک قومی معاصر میں بلوچستان میں سونے اور تانبے کی دریافت کے ریکوڈک منصوبے کے بارے میں ایک خبر چھپی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ریکوڈ ک منصوبے میں اپنے 15 فی صد حصص سعودی سرمایہ کار کو بیچے گا۔ ریکوڈک بلوچستان میں سونے اور تانبے کی دریافت اور ان کے نکالنے کا بڑا منصوبہ ہے جس میں بیرک گولڈ نامی کمپنی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ یہ کمپنی اس منصوبے میں 50 فی صد حصص کی مالک ہے تو بقایا 50 فی صد حصص میں سے25 فی صد وفاقی حکومت اور 25 فی صد بلوچستان حکومت کی ملکیت ہیں۔ وفاقی حکومت اپنے 25 فی صد حصص میں سے 15 فی صد سعودی سرمایہ کار کو فروخت کرنے کی صورت میں صرف10 فی صد حصص کی مالک رہ جائے گی۔ کچھ حلقوں کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے تاہم اس کے نتیجے میں جہاں پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری جو بوجوہ تعطل کا شکار ہے آگے چل پڑے گی وہاں حکومتِ پاکستان کو ان حصص کی قیمت کے طور پر قابلِ قدر زرِ مبادلہ بھی حاصل ہو گا جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔

اقتصادی صورتِ حال کی بہتری کے کئی اور چھوٹے چھوٹے اشاریے بھی بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔ گندم کی پیداوار میں اضافے سے آٹے اور میدے کی قیمتیں کم ہو چکی ہیں جس کا نتیجہ تندوروں پر روٹی اور نان کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ روٹی کی قیمت بیس روپے سے کم ہو کر 12سے 15 روپے پر ہو چکی ہے۔ اسی طرح چینی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ شوگر ملز مالکان شور مچائے جا رہے ہیں کہ اُن کے پاس 15لاکھ ٹن اضافی چینی موجود ہے جس میں پانچ لاکھ ٹن چینی بر آمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس سے 26 کروڑ ڈالر زرِ مبادلہ حاصل ہو گا۔ حکومت کا اصرار ہے کہ چینی کی قیمت کو سال بھر کے دوران 140 روپے فی کلو سے نہ بڑھنے کی یقین دہانی کرا دی جائے تو چینی کی برآمد کی اجازت دی جا سکتی ہے جو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری سے مشروط ہو گی۔

ملک کی اقتصادی صورتِ حال میں بہتری کے آثار کے حوالے سے یہ پہلو یقینا حوصلہ افزا ہیں۔ اس میں ایس آئی ایف سی (سرمایہ کاری سہولت کونسل) کے مثبت کردار کا بھی بڑا حصہ ہے۔ زراعت، معدنیات، اور کان کنی کے شعبوں میں باہمی تعاون کے نتیجے میں ترقی کے آثار سامنے آ رہے ہیں۔سیاحت اور آئی ٹی کے شعبوں میں بھی بہتری کے بہت امکانات موجود ہیں۔ اللہ کرے گا کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامز ن ہو گا اور اس کی اقتصادی مشکلات میں بتدریج کمی دیکھنے کو ملے گی۔