روحانی شخصیت سے ملاقات

آقا کریمؐ سے سوال کیا گیا یا رسولؐ…… ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان، روح کیا ہے؟ آقاؐ نے فرمایا۔ امر اللہ۔

شخص اور شخصیت جیسا کہ آپ کے علم میں شخص ایک فرد ہے اور شخصیت پورا کردار، ظاہر، باطن، عمل یعنی قول و فعل سب کا احاطہ اگر کرنا ہے تو پھر لفظ شخصیت آئے گا۔ روحانی شخصیت جس کو پڑھ کر ہی کیفیت بدل جاتی ہے جس میں بشریت کا تقاضا رکھنے والی آلائشیں الگ ہو جاتی ہیں، پاکیزہ روح کا تصور باقی رہ جاتا ہے۔

روحانیت کی دنیا بالکل الگ ہے۔ اگلے روز میں بہت بڑی روحانی شخصیت کے ہاں حاضری دینے گیا۔ 2003ء سے ان کی نظر کرم سے فیض یاب ہوں۔ میری ان سے عقیدت و نیازمندی مسلسل مگر بالمشافہ رابطہ کم کم ہی رہا البتہ ہدایت، فیض دی مسلسل میرا مقدر رہا۔ان کے کردار کی خوشبو مجھے ابھی تک اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ نیک روحوں سے تعلق رکھیں۔ نیک لوگوں سے معاملات رکھنے سے اللہ کی ہدایت آسان ہو جایا کرتی ہے۔

پوپ جان پال کا اگر دیدار آج بھی لاکھوں کروڑوں عیسائی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ روحانیت نے ابھی تک سائنس سے شکست نہیں کھائی بلکہ یہ دو الگ اور بالکل الگ شعبے ہیں۔ کہتے ہیں اللہ کا جن پر کرم ہو جو روحانی شخصیت ہو آپ اس کے پاس جتنی دیر بیٹھیں انوارات کی برسات آپ پر برستی رہے گی۔ میں نے جب ارادہ کیا کہ میں حضرت صاحب کے پاس جاؤں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی خوبصورت اور لاجواب کردار کے لڑکپن سے ہی مالک ہیں تو یقین کریں میری کیفیت ایسی تھی کہ میں بتا نہیں سکتا۔ میں کس کیفیت میں مبتلا تھا۔ اردو ادب میں مبتلا بے اختیاری کی انتہا ہے گویا مبتلا بے بسی کا ہمالیہ ہے۔ دراصل روحانیت، عقیدت، پاکیزگی، خوبصورتی، نیک کردار، نیک روح، خوش لباس، خوش گفتار یوں سمجھ لیجئے کہ وارث شاہ نے جو ہیر کی تعریف کی وہ کسی نیک روح کی تعریف ہے اور پھر بندہ مرید ہو فیض کے لیے جائے نیاز مندی کے لیے جائے تو حالت دیدنی ہوتی ہے۔ ان کو تبلیغ دین اور درس انسانیت کے لیے زبان کا استعمال نہیں کرنا پڑتا۔ میں گیا تو خادم نے بتایا کہ نماز میں ہیں۔ ان کو پتہ تھا لہٰذا انہوں نے نماز کے بعد مجھے اپنے ہجرے میں طلب فرمایا۔

حضرت صاحب سے ملاقات کے بعد سرشاری اور خمار ایسا ہے کہ میری روح وجود میں داخل ہو گئے گویا جیسے میں نے ان کے افکار اور فرمودات ایک گھونٹ کی طرح حلق سے اتار لیا۔ انوارات ہی انوارات، خوشبو جو کسی پرفیوم نہیں ایک پاکیزہ روح کی خوشبو تھی۔ مجھے محویت میں لے لیا۔ یہ بات یاد رہے کہ حضرت صاحب کے پاس جانا گلاب چھونا ہے یعنی کانٹے ہیں ان کے پاس پہنچنے سے پہلے اتنے بدبودار لوگ ملیں گے کہ مجھے احساس ہوتا ہے حضرت صاحب ایک کنول ہیں بلکہ مندروں میں گھری ایک مسجد ہیں۔ میں جتنی دیر بیٹھا مجھے کوئی ذہنی دباؤ تھا نہ انگزائٹی، میری کوئی ضرورت تھی نہ تشنگی البتہ قبلہ کے سامنے تھا پھر بھی بے قراری تھی۔ یہ ان کی شخصیت کا معجزہ ہے کہ بے قراری برقرار رہتی ہے، تشنگی باقی رہتی ہے۔ مجھے احساس تھا کہ انہوں نے عبادت کرنی ہے۔ وہ کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، انہیں بہت سے کام ہیں۔ رات کو قیام بھی کرتے ہیں۔ میں ان کے پاس جتنی دیر رہا میری دعا رہی کہ وقت تھم جائے۔ حضرت صاحب کے چہرے پر نیک کردار کا اتنا نور تھا کہ چہرے پر نظر نہیں ٹک رہی تھی۔ میں بار بار اپنی عینک اتارتا اور نظریں ہٹا لیتا۔

ان سے سوال کیا کہ انسانوں میں تو ارتقا ہے یعنی برائی سے اچھائی کی طرف، منفی سے مثبت کی طرف اور کیا فرشتوں میں بھی ہے؟ انہوں نے فرمایا سب کچھ انسان کے لیے ہے جو اللہ کا مخاطب بھی ہے نائب اور مطمع نظر بھی۔ جن بھی اللہ کے مخاطب ہیں مگر نائب نہیں۔

حضرت صاحب سے سوال کیا نصیحت فرما دیں، بولے کہ انسان کا اپنا آپ اس کے اختیار میں نہیں ورنہ کم از کم اپنے اوپر گزرتے وقت کے چھوڑے ہوئے اثرات پر تو قابو پا سکتا۔ اگر عافیت میں رہے تو 70/80 سال کی زندگی کار آمد زیادہ سے 33 سال رکھنے والا انسان اپنی تحقیق کے بجائے کہ وہ کون ہے؟ خالق کی تحقیق میں لگا ہے جو ثابت شدہ ہی نہیں ہر پل ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مزید گویا ہوئے کہ ہدایت مقدر میں نہ ہو بے شک گھر کا گیٹ قبرستان کی طرف نکلنا ہو انسان نصیحت اور عبرت نہیں پکڑتا۔

میں نے سوال کیا اعمال نامہ کیا ہے۔ کہنے لگے تنہائیوں، نیتوں، چھپی ہوئی نیکیوں سے تو اللہ واقف ہے کہ کیا آگے بھیجا مگر انسان کے دم ٹوٹنے کی خبر سننے والے جو الفاظ بیان کرتے ہیں جو تذکرہ کرتے ہیں یہی تذکرہ اعمال نامہ ہے۔

میں نے سوال کیا کہ کیا زندگی صرف آخرت کے لیے ہے بولے کہ زندگی مثبت تسخیر کا نام ہے۔ بھرپور جینے کا نام ہے۔ گوشہ نشینی کا نام نہیں۔ مالک کے احکامات کے ساتھ جیتے جایئے۔ حکم آنے تک بہت کچھ آگے بھیج چکے ہوں گے یہ دنیا واقعی آخرت کی کھیتی ہے۔ مزید فرمایا رہی بات زندگی کی۔ایک باب کے مکمل ہونے کا نام ہے بلکہ پیش لفظ کے بعد پوری کتاب باقی پڑی ہے۔
میں نے سوال کیا کہ زندگی اور موت کا فرق؟ بولے کہ نینو سیکنڈ میں زندگی موت میں بدل جاتی ہے۔ دنیا سے رخصتی ایک دن کا عمل ہے۔ قصہ مکمل، جسد خاک یا آگ کے سپرد یا پھر چیلوں کے جبکہ روح واپس جہاں نئی اور دائمی زندگی ہے۔ کچھ دیر بعد گویا ہوئے کہ معافی تو ہے ہی انسان کے لیے پیغمبر، اللہ کی کتابیں انسانوں کے لیے ہیں اور گناہ گار لوگ تو اللہ کا خاص مخاطب ہیں وہ معاف ہی نہیں کرتا نوازتا بھی ہے اور یوں نوازتا ہے کہ انسان خود دھنگ رہ جاتا ہے۔

میرے روحانی پیشوا اگر چاہیں تو ایک دن میں ایک کروڑ روپے اپنے حلقہ ارادت کے لوگوں سے عقیدتاً تحفتاً انکار نہ کریں تو دنوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جائیں لیکن ایمان اور یقین، غیرت اور خودی، حمیت اور وضع داری کی جو دولت ان کے پاس ہے وہ میں نے آج تک کسی کے پاس نہیں دیکھی۔ ان کو انسان کی قیمت لگانا یا لگوانا سخت ناپسند ہے باقاعدہ گناہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کے ضمیر، قلم، سوچ، پسند و ناپسند کو قیمت دے کر خریدنے کی کوشش کرے ایسے سوداگر اور متاع برائے فروخت کے تصور سے ہی کانپ جاتے ہیں۔ وہ اپنے کام کو عبادت اور عبادت کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ انسانوں کی توقیر کو مقدم، غیبت اور خوشامد کو نزدیک نہیں آنے دیتے۔ ان کی ہر بات دل و دماغ روح خیال کو مسخر کر جاتی ہے، خاموشی میں ابلاغ اور ابلاغ میں تبلیغ میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ دراصل ان کی نظر نے میری زندگی کا دھارا بدل دیا تھا۔

نماز وغیرہ میں غفلت ہوا کرتی تھی مگر اب کی بار تو جیسے بازو پکڑ کر جائے نماز پر  لے آئیں یہ ہے روحانیت اور روحانی شخصیت۔