میزانیہ 25-2024، وزیر اعظم کی خدمت میں

بجٹ کا معیشت کی خوشحالی اور بحران میں اہم کردار ہوتا ہے، اس کی بنیاد حکومت کی معاشی ترجیحات ہوتی ہیں، اگر بجٹ میں اضافہ نظر آئے غیر ترقیاتی اخراجات میں، تعیشات کی درآمد میں اسی طرح بجٹ خسارہ کو پورا کرنے کے لئے قرض کا حصول ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں معیشت کی سمت ٹھیک نہیں ہیں، اگر اخراجات اس کے برعکس ہوں اور آمدن میں اضافہ نظر آئے جس پر معیشت کا انحصار ہو تو معیشت کی بہتری آہستہ آہستہ نظر آنا شروع ہو جائے گی، اسی طرح اگر تعلیم، ترقیاتی اخراجات میں اضافہ، قرض کے بجائے ملکی ذرائع پر انحصار، حکومتی اخراجات میں سادگی، ٹیکس کی دیانتداری سے وصولی، ٹیکس فری زونز, برآمدات کو سہولیات کی فراہمی جس کے نتیجے میں ملکی معیشت میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ تو ہم کہ سکتے ہیں معیشت بہتری کی طرف چل پڑی ہے۔ بجٹ 25-2024 کی آمد ہے معیشت کی بہتری کے لئے کیا اقدام ہو سکتے ہیں یہ تو بعد میں بات کریں گے وزیر خزانہ نے بجٹ کے بارے میں حکومت کا جو مؤقف پیش کیا اور حکومت ہی کی بنائی گئی بجٹ کمیٹی جس نے سفارشات پیش کی ہیں اس پر بھی بات کرنا ضروری ہے۔

وزیر خزانہ نے پری بجٹ کانفرنس مالی سال 25-2024 میں فرمایا، ہماری حکومت پاکستان کو پائیدار اقتصادی ترقی اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے پرعزم ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں ہم اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور مالیاتی نظم و ضبط اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے اصلاحات کے نفاذ کے لیے نمایاں پیش رفت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ آنے والا بجٹ اس پیشرفت کی بنیاد رکھے گا، جس پر توجہ دی جائے گی:

• اقتصادی ترقی اور روزگار کی تخلیق کو فروغ دینا
• ٹیکس کی تعمیل اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا
• تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال جیسے اہم بنیادی ڈھانچے اور سماجی شعبوں میں سرمایہ کاری
• معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد کرنا، بشمول غریب اور پسماندہ
• نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینا
توانائی کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان نئے پروگرام کے لیے جاری مذاکرات نے آنے والے بجٹ کو کافی اہمیت دی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام درحقیقت ایک ”پاکستان پروگرام“ ہے۔

وزیراعظم کی قائم کردہ ایک 7 رکنی کمیٹی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی جس نے درج ذیل سفارشات مرتب کی ہیں جن میں بے نظیر انکم پروگرام کے اخراجات صوبوں کے ساتھ بانٹنے اور صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں وفاق کا حصہ کم کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ ایچ ای سی کے تحت کوئی سرکاری یونیورسٹی کی منظوری نہ دی جائے جبکہ دیگر جامعات کے اخراجات میں بھی صوبے اپنا حصہ ڈالیں۔ پینشن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ فوج، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں جولائی 2024 نئی بھرتیاں کنٹری بیوٹری پنشن سسٹم کے تحت کی جائے جب کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ پنشن کا نظام ختم کرے جس سے قومی خزانے پر کافی بوجھ پڑتا ہے۔بے نظیر انکم پروگرام سمیت سماجی تحفظ کے پروگراموں کا مالی بوجھ صوبوں کے ساتھ بانٹا جائے اور اس سلسلے میں مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں پہلے مرحلے میں صوبوں کو 25 فیصد حصہ دینے پر آمادہ کیا جائے۔ صوبوں کے ترقیاتی پروگراموں میں بھی وفاق کا حصہ کم کرنے کی سفارش کی ہے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی قیادت میں قائم سات رکنی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد سے قومی خزانے کو 300 ارب روپے کی بچت ہو گی۔

حکومت کا مؤقف جاننے کے بعد وہ تجاویز حاضر خدمت ہیں جو معیشت کی بہتری کے لئے ضروری ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کو کم نہیں ختم کیا جائے کیونکہ اس سے پاکستان کے غریب عوام بھکاری تو بنے ہیں لیکن اس عوام کا ملک کی ترقی میں کردار صفر ہے، بجٹ 2024-2023 میں 400 ارب روپے رکھے گئے تھے اسی پیسے کے استعمال کے لئے اخوت فاؤنڈیشن یا الخدمت فاؤنڈیشن کا بنو قابل کا ماڈل استعمال کیا جاتا، ہونہار نوجوانوں کو بلا سود قرضوں کے ساتھ چھوٹے کاروبار کرنے اور جدید آئی ٹی کی تعلیم اور زراعت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کا ہنر سکھایا جاتا جس سے 10 کروڑ فراد اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے۔ یہ پروگرام 2008 میں شروع ہوا تھا آج 15 سال بعد پاکستان کے جو 10 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے اور ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے۔ وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ اس سال کوئی نئی یونیورسٹی نہ بنائی جائے، میری وزیراعظم سے یہ گزارش ہے پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے جدید آئی ٹی، انجینئرنگ اور زرعی یونیورسٹیز کی اشد ضرورت ہے، جدید سے مراد جدید آلات اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے اساتذہ بلائے جائیں جو ہمارے طلبا کو رٹہ لگوانے کے بجائے ریسرچ کروائیں جس سے ہماری انڈسٹری، آئی ٹی، زراعت ہر شعبہ زندگی ترقی کا عنوان بنے گا۔

کرپشن کی وجہ سے انکم ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز کی وصولی بہت کم ہوتی ہے، انکم ٹیکس میں انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک تمام بددیانت ہیں اسی طرح کسٹم میں انسپکٹر سے لے کر کلیکٹر تک کرپشن میں ملوث ہیں اگر اس طرح کے شعبوں میں دیانتدار آفیسرز کی تعیناتی کی جائے تو ہمارے ملک کا ریوینیو 3 سو فیصد تک بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں کل زمین 79.6 ہیکڑز ملین ہے جس میں سے 24 ملین ہیکٹرز زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں، باقی ماندہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کام جلد مکمل کرنا ہوگا آج سے 22 سال پہلے کچھی کنال پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا لیکن یہ منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہوا جو کرپشن کی نذر ہو گیا۔ اضلاع کی بنیاد پر کسانوں کے لئے سنٹر بنائے جائیں جہاں سے برآمدات کے لئے سہولیات میسر کی جائیں جس سے سالانہ 2 بیلین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انڈسٹریل گروتھ کے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے اس کے لئے ہمیں ٹیکس فری انڈسٹریل زونز بنانا ہوں گے اور ون ونڈو آپریشن سے سرمایہ کاروں کو تمام سہولیات دینا ہوں گی آج ہمارا اپنا سرمایہ کار جو بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں اپنا سرمایہ منتقل کر رہا ہے ان سہولیات سے وہ ہی نہیں بیرون ممالک سے سرمایہ آئے گا، ملک کی ترقی کے لئے بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم اور داسو جلد مکمل کئے جائیں کیونکہ سستی بجلی کے بغیر زراعت، انڈسٹری کوئی بھی شعبہ ترقی نہیں کر سکتا، چین اس کی واضح مثال ہے۔ 22 فیصد شرح سود ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے ماہرین اسے مہنگائی کا کم کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ اس سے مہنگائی مزید بڑھتی ہے۔ جون 2024 کے آخر تک بینکوں سے موجودہ قرضے 70 کھرب روپے تک پہنچ سکتے ہیں جس سے معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوگی۔ ہمیں اخراجات کو کم کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا جو میری اوپر دی گئی تجاویز سے ممکن ہے۔