کل کا بازیچہِ اطفال ہے آج کا کوچہِ جاناں

سولہ مئی دو ہزار چوبیس کو جہلم سے ایک خبر چلتی ہے کہ استانی سے شادی کا خواہش مند طالب علم ہاتھ میں پستول پکڑ کر جا پہنچا، پنجاب پولیس نے موقع پر پہنچ کر اسلحہ قبضے میں کر لیا۔ بظاہر دکھنے میں یہ ایک مضحکہ خیز سی خبر ہے لیکن اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور بے شمار ہیں۔

اس وقوعہ پر مباحثہ کرنے سے قبل آپ کو ماضی کے جھروکوں میں لے جانے کی جسارت کرنا چاہوں گی۔ گرمیوں کی جھلساتی دوپہر ہے، سورج سوا نیزے پہ ہے، آپ نے ایک لمبی قطار میں لگ کر کینٹین سے ایک سموسہ اور ایک بوتل خریدی، تپش اور حدت سے بچنے لیے اپنی جماعت کا رخ کیا، اور جا کر استانی کی کرسی پہ ڈیرہ جما لیا، میز پہ اپنا بھوجن سجایا اور پلیٹ سے سموسہ اچک کر اسے اپنے نتھنوں کے قریب کیا، ایک لمبی سانس لے کر اس کی مسحور کن خوشبو کو اپنے اندر انڈیلا اور آنکھیں بھینچ کر پورے دل سے سموسہ کترنے ہی والے تھے کہ آپ کے ہم جماعت نے آپ کی کمر پہ ایک دھپ رسید کی "تجھے شرم نہیں آتی ٹیچر کی کرسی پہ بیٹھتے؟ فیل ہو جائے گا” اور لمحے کے ہزارویں حصے میں آپ کو ایک انجانے خوف نے آن گھیرا، آپ سموسے کی تمام تر جاذبیت بھول کر اپنے گناہ کی توبہ کرنے لگے، جیب سے رومال نکال کر استانی کی کرسی جھاڑی، باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی اور پورے دل سے اپنی حرکت پر شرمندہ ہوئے، ساتھ ہی ساتھ قسم کھائی کہ آئندہ ایسی کوئی واحیات حرکت کرنے کا خواب میں بھی نہیں سوچیں گے۔۔۔ یہ تھی پرانے وقتوں کی تربیت، کہ جب اساتذہ کو در حقیقت روحانی والدین کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اب آتے ہیں آج کی دنیا میں جہاں گھنیری پلکوں تلے اساتذہ سے ہی معاشقے چلانے کے سپنے سنجوئے جاتے ہیں۔

عصرِ حاضر کے تعلیمی اداروں میں اخلاقی فقدان پہ نظر دوڑائیں تو انگنت واقعات پھن پھیلائے نظر آتے ہیں، کہیں کوئی کسی استانی کے عشق میں غنڈہ گردی کرتا پھر رہا ہے تو کہیں کسی یونیورسٹی کا جان توڑ سکینڈل میڈیا پہ چھایا نظر آتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے اپنی طرف سے بہترین اکیڈمی کا انتخاب کرتے ہیں۔ خوابوں کا بوجھ کندھوں پہ لادے وہاں ہر شخص کی آنکھوں میں امید کے دیے ٹمٹما تے ہیں آس اور یاس کے پنگھوڑے میں ڈولتے، مستقبل کے حوالے سے اندیشوں میں گھرے تمام قابل اور ذہین لوگوں کے ذہنی دباؤ کا خدا کے سوا اگر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے تو شاید وہ ان اکیڈمیوں میں تیاری کے نام پر چورن بیچنے والے افسرانِ بالا ہیں جو نہ کبھی استاد کے منصب کو سمجھ پائے نہ سمجھنے کی کوئی کوشش کی۔ ان کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے ایک ایسی مخلوق بن چکے ہیں کہ جو شاید زمین پر خدا ہیں، اور ان کی تفریح کا تمام تر سامان اس ادارے میں ہی موجود ہو جہاں وہ بظاہر لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کس طرح وہ محنت کر کے اسی مقام پر پہنچ سکتے ہیں جس پر وہ ہیں، کوئی اپنی تنخواہ، پریشر، ورک لوڈ جیسے حقائق نہیں بتائے گا، ہاں بڑی سرکاری گاڑی پہ چمچاتی نیلی بتی بچوں کو دور سے ہی دکھ جاتی ہے، خیر استحصال کا نہ ختم ہونے والا جو سلسلہ یہاں شروع کیا جاتا ہے اس کی شاید ہی کوئی حد ہو۔
آئیے اب اٹھاتے ہیں چند دلخراش سوالات۔۔

سب سے پہلے تو کیا ہمارا تعلیمی معیار اس قدر پسماندہ ہو چکا ہے کہ ہمارے بچوں کو استاد کے درجے کا ہی علم نہیں؟ کل کا استاد کی جوتیاں سیدھی کرنے والا بچہ آج استانی پہ اگر بندوق تانے کھڑا ہے تو یہ لمحہِ فکریہ ہے، ہمیں سوچنا ہو گا کہ غلطی کہاں ہوئی اور کس کس سے ہوئی؟ دوسرا اس ساری صورتحال میں والدین کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کل کے والدین بچہ استاد کے حوالے کر آتے تھے کہ چاہے ہڈیاں توڑ ڈالو لیکن بنا کر بندے کا پتر دینا، آج بچے کو ہلکی سی جھڑک دے دو تو والدین استاد کی ہی پرنسپل آفس میں پیشی لگوا چھوڑتے ہیں۔ پھر یہ جو افسران زبردستی کے مینٹورز بنے پھرتے ہیں کیا ان کے گریبان پکڑنے والا کوئی موجود نہیں؟ بندہ پوچھے خود چار چار مرتبہ فیل ہونے والے جب دھکے سے سروس میں آ ہی جاتے ہیں تو انہیں دوسروں کو یہ سکھاتے کہ ایگزام پہلی اٹیمپٹ میں پاس کیسے کرنا ہے، شرم بھی نہیں آتی؟
بازیچہِ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس اخلاقی فقدان کی جڑ تلاش کریں، بعد ازاں اس جڑ کو سرے سے کاٹ کر پھینک ڈالیں، ہمارے والدین کو اپنی روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب بچوں کے آئیڈیلز ہی ٹک ٹاک پر فحش رقص کرنے والے ہوں تو ہم ان سے یہی امید کر سکتے ہیں کہ وہ استانی کے سر پہ بندوق تان لیں۔

ہمارے علما کو اگر جمعے کے خطبے میں شر پھیلانے اور خود شیطان مردود کے بہکاوے میں آنے سے فرصت مل جائے تو انہیں بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور سب سے آخر میں ہماری سٹیٹ کو تعلیمی اداروں کے ماحول پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پرائیویٹ ادارے بلاشبہ ریاست کے عمل دخل سے آزاد ہیں لیکن بالآخر ہیں تو ریاست کے اندر ہی، اگر ہم کلچرل ویک کے نام پر اداروں میں بولی وڈ تھیم ڈے، مناتے رہے تو بہت جلد ہمارے ہی کلچر کا جنازہ نکل جائے گا۔

میرے اختیار میں فقط میرا قلم تھا اور اس کے لفظ تھے، والدین کے اختیار میں ان کی اولاد ہے اور اربابِ اختیار کے شکنجے میں تعلیمی ادارے ہیں، میں نے اپنے حصے کی شمع جلا چھوڑی ہے اب اگلا مرحلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!!