ایران ہمارا دوست ملک ہے، پاکستانی حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں سو ان کا ہمیں پتہ نہیں مگر پاکستانی عوام کو ایران اپنی کچھ اچھی روایت کی وجہ سے بہت عزیز ہے، حق سچ کے ساتھ اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونا بھی اس کی ایک ایسی شاندار روایت ہے جو ہر مسلمان ملک کو اپنانی چاہئے کہ دین اسلام ہمیں یہی درس دیتا ہے، اس حوالے سے ایران نے کبھی کسی منافقت کا مظاہرہ نہیں کیا، میں ہمیشہ اس احساس میں مبتلا رہتا ہوں اسلامی ممالک کو کبھی کسی نے متحد کیا اور ظلم کے خلاف غیر منافقانہ طور پر کھڑے ہونے پر تیار کیا وہ ایران ہی ہوگا، ابھی اسرائیل نے جو ظلم فلسطینیوں پر ڈھائے اس کے خلاف سب سے توانا آواز ایران نے بلند کی، جو کچھ عملی طور کیا جاسکتا تھا وہ بھی کیا، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ایک طیارہ حادثہ میں وفات خاص طور پر مسلمان ممالک کا ایک سانجھا دکھ ہے، دنیا کے دیگر بے شمار ممالک نے بھی اس پر اظہار افسوس کیا ہے، ابھی کچھ دن پہلے وہ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے، یہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا، اپنے مختصر دورے میں انہوں نے کئی تقریبات کئی ضیافتوں میں شرکت فرمائی، ایک تقریب میں پہلی بار ہم نے انہیں قریب سے دیکھا، ایک ایسا نور ان کے چہرے پر تھا جو ایک دلبر و دلیر انسان کے چہرے پر ہی ہوتا ہے، وہ ہماری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بھی تشریف لائے، اس کی ایک وجہ یہ تھی وہ کچھ پاکستانی طلباء سے ملنا چاہتے تھے، دوسری اہم اور بڑی وجہ یہ تھی یہ وہ عظیم درس گاہ ہے جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال نے تعلیم حاصل کی، اقبال کو شاعر مشرق ٹھیک کہا جاتا ہے مگر ان کی شاعری کو گہرائی سے پڑھنے والے انہیں ”شاعر مشرق و مغرب“ بھی قرار دے سکتے ہیں کہ وہ خودی کا ایک ایسا ”چشمہ“ یا سرچشمہ ہے جہاں سے سبھی فیض یاب ہوئے، اقبال کے اتنے شیدائی پاکستان میں نہیں جتنے پاکستان سے باہر خصوصا مغربی ممالک میں ہیں، اقبال نے اپنی شاعری میں جو فلسفہ خودی پیش کیا وہ صرف پاکستانی حکمرانوں کے ہی نہیں پاکستانی عوام کی فطرت سے بھی بالکل متصادم ہے، اس کے برعکس کئی ممالک میں اس فلسفہ خودی سے باقاعدہ راہنمائی اور تربیت لی جاتی ہے، ایران اور جرمنی میں تو اسے باقاعدہ مشعل راہ سمجھا جاتا ہے، پاکستان بھر کے کل دانشوروں یا ماہرین اقبالیات نے اقبال یا اس کی شاعری پر اتنی ریسرچ نہیں کی جتنی جرمن کی ایک اکیلی خاتون این میری شمل نے کی اور ہمیں یہ پیغام دیا آپ اپنے ہیروز کی قدر کریں نہ کریں ہم کرتے رہیں گے، ایرانی صدر اقبال کے بہت دلدادا تھے، ممکن ہے وہ اپنے پاکستان کے حالیہ دورے میں اقبال کے خاندان سے بھی ملنا چاہتے ہوں، انہیں اس لئے نہ ملوایا گیا ہو کہ اقبال کا خاندان آج کل جس سیاستدان کو سپورٹ کرتا ہے ریاست اسے پسند نہیں کرتی، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا مقام ہمارے دلوں میں اس لئے بھی بڑھا کچھ عرصے سے اسرائیل فلسطینیوں پر جو ستم ڈھا رہا ہے یا جس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کے خلاف مصلحتوں سے پاک کردار اگر کسی مسلمان ملک نے ادا کیا وہ ایران ہے، ہم ایک ایٹمی قوت ہیں، یہی کام ہمارے کرنے کا بھی تھا مگر ہم حسب معمول مصلحتوں کا شکار رہے، ایران کے کردار سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ حوصلہ ملا ”برادر اسلامی ممالک“ میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جو مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتا نہ نتائج کی پروا کرتا، ہے، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی مرحوم جب پاکستان آئے یہاں بھی کھل کھلا کر انہوں نے اسرائیلی درندگی کی مذمت کی، امریکہ کی کچھ غلط پالیسیوں پر اسے بھی للکارا، افسوس عالم اسلام کے ایک اور نڈر راہنما سے ہم محروم ہو گئے، بظاہر ان کا ہیلی کاپٹر ایک اتفاقی حادثے کا شکار ہوا، مگر یہ واقعی اتفاقی حادثہ ہے یا کسی کی کوئی سازش ہے؟ اس کی صاف شفاف تحقیقات صرف ایران کا کام نہیں، عالم اسلام نے اس معاملے میں ایران کی مدد اگر نہ کی پھر اس طرح کی مبینہ سازشوں کا شکار دیگر اسلامی ممالک بھی ہو سکتے ہیں، پھر ہمارے پاس ایک ایسا مسلمان لیڈر بھی باقی نہیں بچے گا جو دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو سکے یا مسلم امہ کو متحد کر سکے، ایک طیارہ حادثہ پاکستان میں بھی ہوا تھا، ہمارے آرمی چیف سمیت کئی جرنیل اس میں مارے گئے تھے، امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا، پاکستانی ادارے تو اس کی صاف شفاف تحقیقات کرنے کی شاید اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے، امریکہ کے پاس کئی ایسے جدید ذرائع ہیں جن سے کسی بھی معاملے کی وہ تہہ تک پہنچ سکتا ہے، اس حادثے میں ان کا اپنا بندہ مارا گیا اس کے باوجود اس نے اس کا سراغ لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی تو اس حادثے کے حوالے سے جو شکوک و شبہات تھے اْنہیں تقویت ملی، اب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر بھی ایک حادثے کا شکار ہوا، ممکن ہے اس حادثے کے حوالے سے امریکہ یا اسرائیل پر جو انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ غلط ہوں، مگر جب تک اس حوالے سے ایسی صاف شفاف تحقیقات نہیں ہوں گی جس سے ایرانی عوام مطمئن ہوں یہ معاملہ عالمی سطع پر کئی مْلکوں کے درمیان شدید کشیدگی کا باعث بنا رہے گا، ظاہر ہے اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے، اسرائیل نے سرکاری طور پر کہہ دیا ہے وہ اس حادثے میں ملوث نہیں، مگر جس روز ایرانی صدر کی وفات کی اطلاع سرکاری طور پر جاری کی گئی میں دیکھ رہا تھا ٹوئیٹر کے ایک پیج ”اسرائیل وار روم“ پر ایک ”ہیلی کاپٹر“ کی تصویر لگائی گئی، کچھ دیر بعد اسے ہٹا دیا گیا، اس کا جو بھی مقصد تھا اس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا، بظاہر امریکہ نے بھی اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اس حادثے میں صرف ایران کے صدر ہی نہیں اس کے وزیر خارجہ بھی جاں بحق ہو گئے، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے بعد ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر اپنے نظام کے سب سے قابل اعتماد شخص تھے، ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے وہ ایران کی طرف سے امریکہ اور عراق کے ساتھ ان مذاکرات میں بھی شامل تھے جو جوہری امور کے حوالے سے کئے جا رہے تھے، ایسے اہم اور قیمتی لوگوں کا ایک حادثے میں چلے جانا صرف ایران کے لئے نہیں پورے عالم اسلام کے لئے ایک سانحہ ہے، ایرانی ملٹری چیف محمد باقری نے اس حادثے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے، انہیں اس عمل کی ذاتی طور پر نگرانی کرنی چاہئے، اگر یہ واقعی ایک اتفاقی حادثہ ہے ظاہر ہے پھر قدرت کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے، لیکن اگر یہ کسی ملک یا کسی اندرونی یا بیرونی ادارے کی کوئی سازش ہے پھر صرف ایران کو نہیں پورے عالم اسلام کو ایسی حکمت عملی اپنانی پڑے گی جس سے آئندہ ایسی سازش کی کسی کو جرأت نہ ہو، ورنہ تاریخ میں ہمارا موجودہ عالم اسلام یا ہمارے ”برادر اسلامی ممالک“ صرف کاغذی شیر بن کرہی زندہ بلکہ مردہ رہیں گے۔