سائبر کرائم کا نیا ادارہ کیا نیا ہو گا؟

وقت تبدیل ہو رہا ہے اور ہماری سوچوں کا توازن قائم نہیں ہو سکا، ہم نئی راہوں کے مسافر بن رہے ہیں، ہماری تدبیریں حاصل ہیں یا لاحاصل ہمیں اس بات کا ادراک نہیں، ہم چاند پر کمند تو ڈالنا چاہتے ہیں لیکن اس منزل کا تعین کرنا ہمارے سے مشکل ہے، ہم مراحل کو طے تو کرنا چاہتے ہیں لیکن راستوں کے کٹھن اور دشوار ہونے کا واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں، منزلوں کے شیدائی تو ہم خوابوں کی تعبیروں میں ہیں، ہماری سوچوں کا فقدان دور نہیں ہو رہا، ہم تجربات اور مشاہدات کے دائرے میں گھن چکر ہو رہے ہیں۔

ابھی کچھ دن قبل ایک نئی ایجنسی کا قائم کیا گیا ہے جس کا نام ”نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی“ رکھا گیا ہے، نگران حکومت نے اس ایجنسی کے قیام کے حوالہ سے پہلی اینٹ لگائی ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس نئی ایجنسی کے قیام کی بنیادیں نگران حکومت نے کھڑی کی اور اسوقت کی نگران کابینہ نے اس کے قیام کی منظوری دی لیکن اس ایجنسی کو قائم کرنے میں کامیابی موجودہ حکومت نے حاصل کی، اس ایجنسی کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے اس حوالہ سے ہلکا پھلکا تجزیہ کیا تو بنیادی طور پر یہ ادارہ سوشل میڈیا کے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے، پیکا ایکٹ 2016 کے تحت یہ ایجنسی اب اپنی تحقیقات اور مقدمات درج کرے گا۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ ایف آئی اے سے سائبر جرائم کا ونگ چھین لیا گیا، اسکو ہم ذہانت کہیں یا فکر لیکن جیسا بھی ہے کہ ایک بات تو سچ ہے کہ ایف آئی اے جیسا ادارہ ان جرائم کی روک تھام کے حوالہ سے نااہل تھا، ایف آئی اے کی قابلیت اور اہلیت کے حوالہ سے معزز عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک نے اس کی کارکردگی پر کئی دفعہ تحفظات کا اظہار کیا، جب پیکا ایکٹ 2016 میں نافذ عمل کیا گیا تو ایف آئی اے کی زیر نگرانی سائبر کرائم ونگ بنایا گیا جس کا مقصد سائبر کرائم کے جرائم کی روک تھام لیکن جب یہ ادارہ قائم کیا گیا تو اس وقت سے لیکر اب تک اس قانون جس کو ہم پیکا ایکٹ کہتے ہیں اس کو ہر جگہ پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور معزز عدلیہ تک نے اس قانون کے حوالہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا یہاں تک کے صحافی برادری سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں نے اسکو آزادی صحافت پر پابندی عائد کرنے کے مترادف قرار دیا، ایف آئی اے جو پہلے ہی اپنی ناقص کارکردگی اور قابلیت کی وجہ سے حرف تنقید پر تھی پیکا ایکٹ کو اس کے حوالہ کرنے سے کئی منفی سوالات جنم لینا شروع ہو گئے، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ (جو اب ختم ہو چکا ہے) کے حوالہ سے ذرائع اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں جو بھی ملازمین تعینات تھے وہ کنٹریکٹ پر تعینات کیے گئے تھے، ان کی پیشہ ورانہ مہارت و قابلیت کے حوالہ سے بے شمار سوالات اور خدشات جنم لیتے ہیں، ان کی تعلیم قابلیت کیا تھی اور آخر کیا وجہ تھی کہ سائبر کرائم ونگ کے ملازمین کو مستقل بنیادوں پر تعینات نہیں کیا گیا حالانکہ 8 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس ایجنسی کی ساکھ بحال ہو سکی اور نہ ان کے ملازمین مستقل ہو سکے، کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے ان ملازمین کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت کتنی ہو گی اس حوالہ سے لکھنے اور نہ ہی کچھ کہنے کی ضرورت ہے اب یہی ملازمین اس ادارے میں تعینات کر دئیے گئے ہیں وہی پرانی ریت رواج کے تحت اور رسمی اقدامات سے اس کے ادارے کی ساکھ کو کیا نفع ہوگا یہ بات سمجھ سے باہر ہے کیونکہ حکومت کے وزیر اطلاعات نے جس طرح اپنے بیان میں کہا ہے کہ” ایف آئی اے کی وہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ سائبر کرائم کے مقدمات دیکھ سکے” اگر اس ایک بیان کے تناظر کو سامنے رکھ کر سوچا اور پرکھا جائے تو پھر ایک بات سمجھ آتی ہے کہ اس نئی ایجنسی کی اہلیت بھی ایف آئی اے جیسی ہو گی کیونکہ ایف آئی اے کے وہی ملازمین دوبارہ سے اس ادارے میں تعینات کر دئیے گئے۔ جو مقدمات پہلے سے درج ہیں انکی ساکھ پر بھی کئی سوالات جنم لیں گے کہ آیا پیکا ایکٹ کے تحت جو مقدمات پہلے سے درج ہیں ان میں تحقیقات کا دائرہ کار کیا تھا اور تحقیقی مواد اور انکوائریوں کس قانون کے تحت کی گئیں یہ سوالات ایسے ہیں جو مجھے جیسے ہر ناقص علم فرد کے ذہنوں میں گردش کرینگے اور جو سوالات ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں انکا جواب جس طرح ہمیں حاصل ہوگا۔ اب اگر نئی سوچ اور فکر رکھ کر نئی ایجنسی کا قیام عمل لایا گیا ہے تو اس میں قابلیت اور اہلیت کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا، جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے اس نئی ایجنسی کے قیام کی ضرورت اس وقت ہونی چاہیے تھی جب ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول اور ان سے جڑے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے پیکا ایکٹ نافذ کیا تھا اگر اس وقت یہ ایجنسی قائم کر دی جاتی تو آج کسی کو بھی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ پر سوالات اور خدشات اظہار نہ کرنا پڑتا۔ بظاہر تو اس وقت کی حکومت نے پیکا ایکٹ صحافیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نافذ کیا تھا اور ہر حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ میڈیا کو اپنے کنٹرول میں رکھے لیکن اس ایکٹ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جن خواتین کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ کو استعمال کر کے جعل سازی سے پیسے ہڑپ ہوتے رہے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ قانون منظور ہوا لیکن آپ ماضی کو دیکھیں تو ایف آئی اے نے اس حوالہ سے کوئی بھی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا اور نہ ہی ایسے جرائم کی روک تھام میں کوئی موثر حکمت عملی اختیار کی۔ ہمارے پاس ایسی کئی اور لاتعداد مثالیں موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگوں نے خود کشیاں تک ہیں لیکن ان لوگوں کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگایا گیا جب تک کوئی واقعہ رونما نہ ہوا ہو۔ اس بات میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اب نئی ایجنسی جس کو ہم این سی سی آئی اے کے نام سے پکاریں گے وہ ایجنسی انہی ملازمین کی مرہون منت رہے گی۔ اس حوالہ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ جب انہی ملازمین کے حوالہ یہ ایجنسی کرنا تھی تو اس ایجنسی کا قیام عمل میں لانے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، اگر انہی ملازمین نے دوبارہ سے وہی کارنامے سرانجام دینا شروع کر دئیے تو سابقہ ایجنسی اور اس کی کارکردگی میں کیا واضح تبدیلی ہو گی، اگر یہی ملازمین اس ایجنسی میں اپنی خدمات سرانجام دیں گے تو کس طرح حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔