سفر ادھورا رہا، آسماں ختم ہوا

شیطان کی انسان سے دشمنی آدمؑ کی تخلیق کے وقت سے چلی آ رہی ہے ربِ کائنات نے شیطان مردود کو قیامت تک کی مہلت کے ساتھ انسانوں کے دل میں وسوسے ڈالنے کی قوت بھی دی۔ اس عطا شدہ قوت کے بل بوتے پر شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں آدم کے بیٹوں کو اللہ کا باغی و نا فرمان بنا کر جہنم کا ایندھن بنا دوں گا۔ جس پر ربِ کریم نے شیطان کو جواب دیا کہ جو میرے مخلص بندے ہوں گے وہ تیری پیروی نہیں کریں گے اور تیرے دھوکے میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ امام صادق فرماتے ہیں: شیطان کے یار و مددگار ہیں کہ جب رات ہوتی ہے تو وہ مشرق و مغرب کو پُر کر دیتے ہیں اور وہ اکثر لوگوں پر اپنا تسلط جما کر ان سے رات کی تاریکی میں خلاف ورزی کا کام لیتے ہیں، اور لوگوں کی نگاہوں سے دور تاریکی، تنہائی اور خاموشی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے چوری، قتل، زنا اور ہر طرح کی دوسری برائیوں پر آمادہ کرتے ہیں۔

برصیصا بنی اسرائیل کا ایک قدیم صوفی عابد تھا، جس کی کہانی مسلمانوں کے لیے ایک عبرت آمیز قصہ ہے۔ جو ہمیں نیکی کی راہ پر چلنے اور شیطان کی چالوں سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔ برصیصا ایک نیک اور متقی عابد تھا، جو ساٹھ سال تک دن رات بس ربِ کائنات کی عبادت، اطا عت و بندگی میں زندگی بسر کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچ گیا کہ جب جاں بلب مریضوں کو اس کے پاس لایا جاتا تو وہ اس کی دعا سے تندرست ہونے لگے۔ اس کی عبادت اور پرہیزگاری کی وجہ سے لوگ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شیطان نے اسے ورغلانا چاہا مگر وہ شیطان کے قابو میں نا آیا، ساٹھ سال کے عرصہ میں اس نے ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نا کی یہاں تک کہ اس نے ابلیس کو بھی بے بس کر دیا۔ ابلیس نے سرکش شیاطین کو جمع کیا اور پوچھا، کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو برصیصا کے معاملے میں مجھے کافی ہو؟ یہاں ابیض نامی ایک شیطان (جس کے ذمہ انبیاء اور اولیا کو آزمائش میں مبتلا کرتے رہنا ہے) بولا، میں آپ کی مراد پوری کروں گا۔۔ پھر ایک دن، ایک معقول گھرانے کی بیمار عورت جس کو سایہ کا مرض لاحق تھا کو اس کے بھائی علاج کی غرض سے برصیصا کے پاس لائے اور طے یہ پایا کہ کچھ عرصے تک وہ عورت وہیں رہے تا کہ اس کو برصیصا کی دعا سے شفا حاصل ہو۔ برصیصا نے اس لڑکی کی دیکھ بھال شروع کی اور اس کے علاج معالجے میں مصروف ہو گیا۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے: شیطان انسان کے اندر (اس کو گمراہ کرنے کے لیے) خون کی طرح دوڑتا ہے۔ یہاں بھی ابلیس نے موقع دیکھ کر برصیصا کو لڑکی کے بے انتہا حسن و جمال کی طرف مائل کرتے ہوئے اس کے دل میں لڑکی کے قرب کے وسوسے ڈالنا شروع کر دیے اور اپنے دام میں اسیر کیا۔ حتیٰ کہ وہ اس میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے بعد برصیصا اپنے کیے پر سخت پشیمان ہوا۔ اسے خوف لاحق ہوا کہ اس کا گناہ ظاہر ہو جائے گا، لہٰذا اس نے اس سب سے نجات کی راہ تلاش کرنا شروع کر دی۔ تب شیطان نے دوبارہ اپنا کام شروع کیا اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ وہ لڑکی کو مار ڈالے اور وہیں دفن کر دے تاکہ تمہارا جرم کسی پر عیاں نا ہو۔ تمہارے تقدس اور عبادات کو دیکھتے ہوئے تو کسی کا خیال بھی تمہاری طرف نہیں جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کسی نے کوئی پوچھ گچھ کی تو جھوٹ کہہ دینا، بھلا یہاں ایسا کون ہے جو تیری کہی ہوئی بات کو جھوٹ جانے۔ فرمانِ باری تعالی ہے: ’اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بد ترین ساتھی ہوتا ہے‘ (سورۃ النساء)۔ برصیصا کی سمجھ میں شیطان کی ساری بات سما گئی۔ پھر اس نے بالکل ویسے ہی کیا جیسی شیطان کی چاہ تھی۔ اس نے لڑکی کو قتل کر کے عبادت خانے کے ایک کونے میں دفن کر دیا۔ اب شیطان اس لڑکی کے سارے بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اس کے ساتھ ہی لڑکی کے دفن کی جگہ بھی بتا دی۔ صبح لڑکی کے بھائی برصیصا کی خانقاہ میں پہنچے اور زمین کھود کر لڑکی کی لاش نکال لی۔ اب شیطان پھر سے برصیصا کے پاس آیا اور اس کے دل میں گمان ڈالا کہ قتل بھی کیا ہے اور اب انکار بھی کرو گے تو تین گناہ ہو جائیں گے لہٰذا قتل کا اعتراف کر لو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’جو رحمٰن کے ذکر سے غافل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پہ شیطان کو مسلط کر دیتا ہے اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے‘۔ برصیصا نے اعتراف کر لیا تو حاکمِ وقت نے اسے سولی پر چڑھانے کا حکم دیا۔ جب اس کو تختہ دار پر کھڑا کیا گیا تو شیطان برصیصا کے پاس آیا اور کہا کہ اے برصیصا کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ برصیصا نے کہا کہ نہیں۔ تو شیطان نے کہا کہ میں وہی ہوں جس نے اس لڑکی کو بیمار کیا تھا، اور میں نے ہی اس کے گھر والوں کو ساری بات بتائی ہے۔ اب اگر تم میری ایک بات مان لو تو میں تمہیں ان تمام لوگوں سے بچا سکتا ہوں۔ برصیصا نے کہا ایسی کون سی بات ہے؟ ابلیس نے کہا۔ زیادہ کچھ نہیں بس مجھے معبود مانتے ہوئے دو سجدے کر لو، مجھ پر ایمان لے آؤ تو میں تمہیں اس سب سے نجات دلا دوں گا۔ لہٰذا برصیصا، جو اپنے گناہوں کی وجہ سے کور دل ہو چکا تھا، نے اسے دو سجدے کیے اور شیطان پر ایمان لے آیا، شیطان اس کے ایسا کرنے سے بہت خوش ہوا اور اس کے پاس سے یہ کہتے ہوئے دور ہو گیا کہ میں تجھ سے بیزار اور بری ہوں اور رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح فرمایا: منافقوں کی مثال شیطان کی سی ہے، جو انسان سے کہتا رہا، کہ کافر ہو جا جب وہ کافر ہو گیا تو کہنے لگا۔ کہ مجھے تجھ سے کچھ سروکار نہیں (سورۃ الحشر)۔ وہ عابد جس نے سالہا سال اپنی عمر عبادتوں میں بسر کی تھی اس طرح بدبختی کا شکار ہوا کہ دونوں جہانوں کی رسوائی اس کے حصے میں لکھ دی گئی۔ شیطان نے اس کو دھوکہ دیتے ہوئے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اسے سزائے موت دے دی گئی۔