تجزیات پر دوستوں کے تبصرے

تحریر اگر گزرے حالات پر ہو تو تاریخ یا گزرتے وقت پر حالات کا تجزیہ ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر ویلاگ یا کالم کی صورت ہو تو پھر دوست اختلاف، اتفاق اور اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ دراصل یہ سب ایک مان اور اپنائیت کا رشتہ ہے کہ لوگ کسی قلم کو اپنا قلم اور زبان و بیان کو اپنی زبان سمجھیں ورنہ آج کس کے پاس وقت ہے کہ کسی کو سنے یا پڑھے۔ بڑے بڑے کالم نگار میں نے معدوم ہوتے دیکھے، بڑے تجزیہ کار وقت کے ہاتھوں ہاتھ ملتے اور حالات کا منہ تکتے دیکھے۔ 9 مئی کب ختم ہوگی؟ 9مئی انصاف کی منتظر۔ ویلاگ پر دانیال گلزار بٹ نے کہا ”کہ 9مئی کو بہت بھیانک اور ناقابل قبول صورت حال سے وطن عزیز کو گزرنا پڑا مگر جہاں تک تعلق ہے کردارکشی کا تو اس میں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے“ اسی طرح کی بات اسلام آباد سے سید دانیال علی نے کی کہ ”آپ کی رائے میں تعصب کا شائبہ نہیں ہونا چاہئے۔ دونوں اطراف ہر طبقے کی بات کو اپنے کالم اور ویلاگ میں اہمیت کے ساتھ جگہ دیتے ہوئے تحریر اور ویلاگ کا حصہ بنائیں تاکہ ہر مکتبہ فکر آپ سے متفق ہو یا دلچسپی کا اظہار کرے اور پھر اپنی فائنڈنگ بھی دے دیں“ مانی چوہدری تو خیر ماشاء اللہ پورے کا پورا کالم ہی لکھ دیتے ہیں جو میرے لیے بہت ہی علم افروز ہوتا ہے۔ میرے ایک کالم ”چند درجن افراد کی امپورٹ‘‘ میں ریمارکس دیتے ہیں۔ ’’سر جی چند درجن افراد امپورٹ کر کے کیا کرپشن کم ہو جائے گی؟ یقینا آپ نے یہ سب لکھا تو آپ کے پاس ٹھوس وجوہات بھی ہوں گی، مسائل کا حل بھی ہو گا۔ سر جی لیکن یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ چند درجن افراد جو امپورٹ کرنے ہیں۔ مان لیا کہ دنیا کے بہترین دماغ آئیں گے جو امپورٹ کئے جائیں گے ملکی خزانے پر بوجھ پڑنے کا شور بھی مچے گا۔ حالانکہ جتنا خرچہ ان کا سال بھر کا ہونا ہے کسی بھی ڈرائی پورٹ پر ایک دن میں اس سے زیادہ کرپشن کی جاتی ہے، سر جی اوپر لا کے دنیا کے بہترین دماغ بھی بٹھا دیں گے تو یہ نچلہ طبقہ جو بے حد کرپٹ ہے جو سارا دن لائیو واردات ہوتے دیکھتا، کراتا ہے اس کا کیا، کیا جائے گا؟ سر جی چند درجن کالی بھیڑوں کو سزائیں دینا ہو گی، ان کے ہر طرح کے اثاثے ضبط کرنا ہوں گے، ان کی نسلوں سے بھی کوئی سرکاری نوکری حاصل کرنے کا اہل نہ ہو، سختی دکھانا ہو گی۔ لیکن سر جی مصلحتیں، تعلقات اور پیسہ سالا ایسی چیز ہے کہ ہر کیس ہی نرم پڑ جاتا ہے یہاں تو پلی بارگین جیسا قانون بھی سہولت ہی دیتا ہے سب کھا جاؤ تھوڑا بہت دے کے آزاد، کیسے کیسے مافیاز ہیں یہاں کون لڑے کا مافیاز سے؟؟ سر جی میں بھی جمہوریت کا صدق دل سے قائل ہوں جمہوریت ہی وقت حاضر کی سب سے بہتر چوائس ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت میں کبھی جمہور کا فائدہ نہیں ہوا“۔

معروف شاعر، قانون دان حافظ انجم سعید تو تحریر اور ویلاگ کی روح میں اتر جاتے ہیں اور بہت دکھی ہوتے ہیں کہ صاحبان اقتدار کے رویے اور مشیران تو اس سمت و نہج سے ہی ناواقف رہنا چاہتے ہیں۔ جاگنا نہیں چاہتے کہ اقتدار تو خواب کی طرح گزر جاتا ہے۔ اگلے دن بانی پی ٹی آئی کی وائرل تصویر دیکھی جسے دیکھ کر سچی بات ہے مجھے تو یاد آ گئی اس غزل کی:
وقت سے دن اور رات وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام وقت کا ہر شے پہ راج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج

امریکہ ایرینا میں تقریر۔ مخالفین کو بند گلی ہی نہیں بنیادوں میں چن دینا اور آئندہ کسی طور بھی ہتھ ہولا رکھنے کا نہ سوچنا۔ تمام تقریریں یاد آ گئیں۔ اللہ کریم سب کے لیے آسانیاں کرے۔ ان کے بہت لوگ چاہنے والے ہیں۔ بیرون ملک چاہنے والے ہیں وجہ صرف ان کو معلوم ہے ورنہ نفرت، بے وفائی، محسن کشی کے علاوہ کارنامہ تو نہیں۔ اب اگر سیاست دانوں کو دیکھا جائے تو بانی پی ٹی آئی نے جو مولانا فضل الرحمان سے کر چھوڑی ہے وہ بھی 35 پنکچر کی طرح یہودی ایجنٹ کو سیاسی بیان قرار دے دیں تو پھر کردار کیا رہ گیا اور کردار کشی کیا رہ گئی۔

اب مریم نواز نے گندم نہ خریدنے کی پالیسی بنائی ہے کیا وہ بیوروکریسی جو فی من کے حساب سے کمیشن کے عوض باردانہ کے ٹھیکے عرصہ سے من پسند لوگوں کو دے رہی ہے جس میں سے ان کی جائیدادیں ضربیں کھا رہی ہیں وہ کرنے دے گی۔ حضرت بلال فرماتے ہیں ”زمانہ جاہلیت میں ہم غلام ایک جگہ کھڑے ہوتے تھے اور ہمارے آقا مالکان مخصوص جگہوں چوکوں چوراہوں میں بیٹھک لگائے زندگی کے مزے لے رہے ہوتے تھے۔ ہر غلام ٹکٹکی لگا کر اپنے مالک کو دیکھ رہا ہوتا تھا کہ کسی بھی وقت جنبش ابرو کے ساتھ بلا نہ لے“۔ یہی صورتحال عدالتی اہلکاروں، بیوروکریسی میں غلام بھرتی ہونے والوں اور کسی بھی محکمہ میں ماتحت عملہ کی ہوا کرتی ہے۔ججوں کو دبائو کا گلہ ہے دبائو تو ہر سرکاری ملازم حتیٰ کہ ہر فرد پر ہوتا ہے۔ حکومتوں پر بین الاقوامی دبائو ہوتا ہے مگر ذمہ داری نبھانا ضروری ورنہ معذرت کر لے۔ البتہ ایک دبائو ہے جو کسی رشتے کی طرف سے آتا ہے۔ چاہے بیوی کا دبائو ہو اس کو سمجھایا جا سکتا ہے یا پھر ”تمہارے لیے تمہاری راہ میرے لیے میری راہ ہونا چاہئے“ رشتوں پر قوم کی قربانی نہیں ہونی چاہئے۔ آج تک بقول مرتضیٰ سولنگی کے ”جتنا بھی انصاف کا قتل
ہوا ہے وہ عدالت میں ہوا ہے“۔ یہ قاضی صاحب سے پہلے کی تاریخ ہے۔ جب تک پروٹوکول، مفت بجلی، اضافی عملہ ختم نہیں ہوتا بڑی کوٹھیاں زیادہ سے زیادہ ایک کنال پر نہیں آتیں۔ جب تک ہمارے عوامی نمائندے بیورو کریسی سے زیادہ لائق فائق نہیں ہوتے۔ لوگ تو چند بڑے محکموں ایف بی آر، پولیس، بجلی، سول ایوی ایشن، ایف آئی اے، نیب کی بات کرتے ہیں ”ایتھے جیہڑا پنوں اوہی لال اے“ آج اسٹیبلشمنٹ کیلئے عدلیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ ان کو سیاست دانوں کی طرح کیوں دیکھنے لگ گئے حالانکہ موجودہ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان بہترین چیفس ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رنگ بازی ان کو لے ڈوبی ہے۔ ان کو مقتدرہ اسٹیبلشمنٹ کے بجائے مکالمہ سیاست دانوں سے کرنا ہو گا، یہی سیاست کا بین الاقوامی اصول ہے۔ یہ تنقید بھی ان پر کرتے ہیں اور معاملہ بھی انہیں سے چاہتے ہیں جنہوں نے ان کی فائل ان کے حکم کے مطابق ان ہاتھ میں تھما دی تھی جو حق میں ہے وہ ڈاکو سے چیئرمین، ڈیزل سے رہبر، چپڑاسی سے وزیر اور جو مخالف ہے وہ علیم خان اور ترین سے ذاتی دشمن۔ بہت کوشش کرتا ہوں کہ ایسا نہ لکھوں مگر ممکن نہیں کہ سچ دیکھنے والی آنکھ بند کر لوں۔ ویسے کوئی بھی دودھ کا دُھلا نہیں مگر بانی پی ٹی آئی تو نئی نسل اور نئے لوگوں کی امید تھی۔ انہوں نے سب کچھ دشمنی اور نفرت کی گھاٹ اتار دیا۔ آج قوم نفاق کا شکار، ادارے سیاست میں مبتلا ہو گئے۔