دبئی لیکس

حبیب جالب نے یہ نظم تب لکھی تھی جب چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہوئے تھے اب یہ حالت ہے اس دھرتی کو چاروں اطراف سے ہزاروں لٹیروں نے چاروں شانے چت کر دیاہے، پہلے زرا حبیب جالب کی اس نظم کے ابتدائی شعر دیکھ لیں
جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
اہل ہوس نے جب تک اپنے دام بکھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی

کاش حبیب جالب زندہ رہتے اپنی جنگ جاری رہتی کاش ہم سب اپنی اپنی طرز کے حبیب جالب ہوتے اپنی جنگ جاری رہتی، بلکہ یہ جنگ اب تک ہم جیت چکے ہوتے، یہ جنگ اب بھی ہم جیت سکتے ہیں بس اس کے لئے متحد ہونا ضروری ہے اور ہر طرح کے ڈر اور خوف سے آزادی ضروری ہے ورنہ سانس لینے کی اور اپنی مرضی سے سوچنے کی جو آزادی ہمیں حاصل ہے وہ بھی شاید نہیں رہے گی، اہل ہوس نے جو حالت اس دھرتی کی کر دی ہے اس پر کوئی ملال انہیں اس لئے بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کون سا پاکستان میں رہنا ہے، پاکستان کو وہ اگر اپنا ملک سمجھتے ہوتے اپنی جائیدادیں دبئی اور دیگر ملکوں میں نہ بناتے، پاکستان کو انہوں نے صرف لوٹ مار کا ایک مرکز بنا رکھا ہے، کیونکہ جس قدر آسانی سے وہ پاکستان میں لوٹ مار کر سکتے ہیں دنیا میں کہیں اور ایسی لوٹ مار کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے، ان ہی بدمعاشوں اور بدکرداروں کی وجہ سے ہمارا بال بال قرضے میں پھنسا ہوا ہے، اتنا بڑا کشکول ہمارے ہاتھوں میں ہے دنیا کو ہم نظر نہیں آتے ہمارا صرف کشکول نظر آتا ہے، کبھی ہم قرض دینے والوں میں سے تھے، آج قرض لے لے کرہم اتنے مقروض ہوگئے ہیں دنیا میں آنے والے ہمارے بچوں کو اگر یہ پتہ چل جائے انہوں نے اتنا مقروض پیدا ہونا ہے وہ ماں کے پیٹ میں ہی شاید خودکشی کر لیں ، کہتے ہیں ایک بادشاہ کے دربار میں ایک گداگر آیا اور کہنے لگا، بادشاہ سلامت سنا ہے آپ بہت سخی ہیں ؟، بادشاہ بولے تم نے بالکل ٹھیک سنا ہے، مانگو کیا مانگنا ہے؟، گداگر نے ہاتھ میں پکڑا کاسہ آگے بڑھا دیا اور کہنے لگا ”بس اسے بھر دیجئے“ بادشاہ نے اپنے گلے سے قیمتی ہار اتار کر کاسے میں ڈال دیا مگر کاسہ نہیں بھرا، اس کے بعد بادشاہ نے اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی کاسے میں ڈال دی، کاسہ پھر بھی نہیں بھرا، گداگر طنزیہ نظروں سے بادشاہ کو دیکھنے لگا، بادشاہ نے شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا، تمام مال دولت کاسے میں انڈیل دی، کاسہ پھر بھی نہیں بھرا، بادشاہ کی حیرانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا، آخر میں اس نے اپنے سر سے تاج اتار کر گداگر کے قدموں میں رکھ دیا اور پوچھا، ”اے پراسرار شخص، کم از کم اتنا تو بتا دے یہ کاسہ کس بزرگ ہستی کا ہے جو بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ؟“، فقیر مسکرایا اور کہنے لگا ”بادشاہ سلامت یہ کوئی عام کاسہ نہیں، یہ پاکستانی حکمرانوں کا کاسہ ہے جو آج تک کوئی نہیں بھر سکا“ ایک بار ایک مشٹنڈے گداگر سے میں نے کہا ”تمہیں شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے“ ؟، وہ بولا ”مانگتے ہوئے شرم کبھی ہمارے حکمرانوں کو نہیں آئی مجھے کیوں آئے گی ؟“، ہمارے حکمران اپنے غریب عوام کے لئے نہیں اپنے لئے مانگتے ہیں، یہ صرف اپنی عیاشیاں اور بدمعاشیاں کنٹرول کرنے کا کوئی اہتمام اگر کر لیں خدا کی قسم کسی سے مانگنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہو، ان میں سے صرف دو چار کے پاپی پیٹ اگر پھاڑ دئیے جائیں اتنا مال و زر وہاں سے نکلے گا پاکستان کے سارے قرضے ایک ہی بار اتر جائیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ کام کرے گا کون ؟ یہ کام صرف عوام کر سکتے ہیں اگر وہ متحد ہو جائیں، اس کے لئے ماحول آہستہ آہستہ اب بنتا جا رہا ہے، آزاد کشمیر سے اس کی ابتدا ہوگئی ہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

دبئی لیکس معمولی ’’لیکس‘‘نہیں ، اس کے مطابق پاکستانیوں کی بیرون مْلک گیارہ ارب ڈالرز کی جائیدادیں ہیں، دنیا بھر کی اشرافیہ کی جائیدادیں دبئی میں ہیں، بے شمار شخصیات نے اپنا کالا دھن سفید کیا، تقریباً سترہ ہزار پاکستانی اپنی تئیس ہزار رہائشی املاک کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں ، پہلے نمبر پر بھارتی دوسرے نمبر پر برطانوی ہیں، بھارت اور برطانیہ کی معاشی حالت شاید اس لئے ابتر نہیں ہوئی وہاں کی اشرافیہ بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنانے کے لئے غیر قانونی طریقے اختیار نہیں کرتے، قومی خزانوں پر ڈاکے نہیں ڈالتے، انہوں نے جو بھی طریقے اختیار کئے ہوں گے ان کے ملکوں کو اس کا کوئی نقصان شاید نہیں ہوا ہوگا، کوئی غیر ملکی قابل اعتماد ایجنسی یا ادارہ اگر یہ تحقیق کرے اس بات کے ثابت ہونے کے اچھے خاصے امکانات ہیں اکثر پاکستانیوں نے جو جائیدادیں یا مال و زر بیرون ملک بنائے ملک اور قومی خزانے کو کسی نہ کسی انداز کا نقصان بنا کے بنائے، اب ان میں سے بے شمار یہ وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں انہوں نے سب کچھ جائز طریقے سے بنایا، پاکستان میں اب چونکہ جائز ناجائز میں فرق ہی کوئی نہیں رہا چنانچہ اپنی طرف سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جائز طریقے سے سب کچھ بنایا، ابھی تو کسی روز ”یورپ لیکس“ بھی شاید لیکس ہو جائیں جہاں ہمارے کئی افسروں خصوصا اعلیٰ پولیس افسروں کے اربوں کھربوں کے اثاثوں کی اطلاعات ہیں ، دبئی لیکس میں لیک ہونے والے بے شمار سیاسی و غیر سیاسی لوگ اپنی اپنی جائیدادوں کو ”ڈکلئیر“ قرار دے رہے ہیں، کاش کبھی ایسا وقت بھی آئے جب ”ڈکلئیر جائیدادوں“ کا بھی حساب ہو یہ کیسے بنائی گئی تھیں؟ حلال کی کمائی سے تو ایک گھر بنانا مشکل ہے، دو وقت کی روٹی آسانی سے مل جائے یہی کافی ہے، اربوں کھربوں ڈالرز کی بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے اسے حلال کی کمائی شاید اس لئے قرار دے رہے ہیں پاکستان میں حلال حرام کی کوئی تمیز تو رہی نہیں، کوئی ادارہ تو ایسا رہا نہیں جو حرام حلال کو دودھ کے دودھ پانی کے پانی کی طرح الگ کر دے، یہاں چور چوروں کے ہاتھ کیسے روکیں یا کیسے کاٹیں گے؟ ایک طرف یہ اربوں کھربوں ڈالرز کے مالک پاکستانی ہیں دوسری طرف پاکستان میں بے شمار لوگ ایک نوالے کو ترستے ہیں، جن کے پاس رہنے کو ڈھنگ کی کوئی چھت ہے نہ پہننے کو ڈھنگ کا کوئی کپڑا یا جوتی ہے، ہم اکثر اپنے اربوں کھربوں پتی سیاسی و اصلی حکمرانوں سے سنتے ہیں ”غریبوں کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں“، ہمارے حکمران اس ملک سے غربت شاید اسی لئے ختم نہیں کرتے کہ غریب اگر نہ رہے ان کے لئے دعائیں کون کرے گا؟