پیپلز پارٹی بھٹو کا مردہ خراب نہ کرے

محبت اور نفرت انسانی مہلت ہے۔ پیپلز پارٹی کے وابستگان اگر ذوالفقار علی بھٹو کے محبت کرتے ہیں اور ان کی یہ محبت عشق کے روح کی کمال کو پہنچ جائے تو یہ قابل اعتراض ہرگز نہیں ہے نہ ہونا چاہئے۔ لیکن جب یہ واردات عشق حقائق کی بیخ کنی کا کلہاڑا بنا دی جائے تو پھر اعتراض نہیں حقیقت کشائی کا جوازضرور مہیا ہو جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وابستگان ذوالفقار علی بھٹو کو قومی شہید یا سید الشہداء قرار دیں۔قائد عوام کی بجائے اصلی قائداعظم کا درجہ دیں یا بھٹو کے لئے ان کے اذہان میں جو کچھ بھی اچھا آ سکتا ہے وہ سمجھیں یا قرار دیں وہ بالکل آزاد ہیں۔ لیکن جب دوسروں کو اپنی سوچ کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے گی تو ایسی کوشش کو مزاحمت کا سامنا بھی فطری عمل ہے اس لئے پیپلز پارٹی کے دوستوں کو مخلصانہ مشورہ ہے الٹے سیدھے مطالبے کر کے گڑھے مردے اکھارنے کی سعی لا حاصل سے گریز کریں۔ ملک بھر میں بھٹو کے خلاف کوئی مخالفانہ فضا پائی جاتی نہ ہی اس کی ذات و شخصیت کسی طور پر ہدف تنقید ہے ۔ اس فضاء کو یوں ہی برقار رہنے دیا جائے تو بہتر ہے ورنہ وہ لوگ ابھی بقید و حیات ہیں جنہوں نے نہ صرف بھٹو کی فسطائیت پر ہی ساست کو دیکھا بلکہ بھگتا ہے بھٹو نے سیاسی مخالفین کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک کیا وہ اپنی جگہ خود اپنی پارٹی اور اپنی ذات کے وفارداروں کے ساتھ جو ”حسن سلوک“ رواء رکھا تھا وہ تاریخ کا حصہ بھی ہے اور یہاں خانہ اذہان میں محفوظ بھی ہے۔

میں بات زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا ایک تاریخی سچ البتہ ضرور سانے لانا چاہوں گا۔ لاہور میں منعقدہ سیمینار میں منظور کردہ قرار داد میں صریحاً دورغ گوئی کی گئی ہے کہ ”ریاست سابق صدر کو ”قائد عوام“ کا خطاب دے کیونکہ عوام پہلے ہی یہ خطاب انہیں دے چکے ہیں“ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام تو ایک طرف خود پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں پر پی ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ انکشاف ہوا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’’قائد عوام‘‘ کا خطاب مل چکا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تب میں روزنامہ مغربی پاکستان کا نیوز ایڈیٹر تھا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب اخبارات کو پریس نوٹ بھجوایا گیا کہ آج سے ملک کے تمام سیاستدانوں کو لیڈر اور رہنما لکھا جائے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو ”قائد عوام“ لکھا جائے۔ نوجوانی کا دور تھا زیادہ توجہ نہیں دی۔ تین روز بعد تب ڈائریکٹر تعلقات عامہ پنجاب حامد بیگ کا فون آیا کہ تین روز ہو گئے بھٹو صاحب کے نام کے ساتھ قائد عوام نہیں لکھا جا رہا۔ مگر سنی ان سنی کر دی چوتھے روز اخبار کے مالک اور چیف ایڈیٹر شیخ شفاعت نے بلایا اور خالص لاہوری زبان میں جو لائق تحریر نہیں ہے کہا وہ … پیچھے پڑ گیا ہے اس … کے نام کے ساتھ قائد عوام لکھ دیا کرو۔ اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو کبھی نیوز ایڈیٹر رہا ہو یا ساتھی سب ایڈیٹر ہو خبروں کی یلغار میں اخبار کی تکمیل تک نیوز ایڈیٹر کی کیا حالت ہوتی ہے چنانچہ بات ذہن سے نکل گئی۔ اگلے دن شیخ صاحب سے پھر بلا کر کہا، او ، یار اس … نے پنجاب اور وفاق کے اشتہار بند کرنے کی دھمکی دی ہے اس لئے آج ضرور بھٹو کے ساتھ قائد عوام لکھ دینا بھولنا نہیں ہے۔ اس طرح پانچویں روز روزنامہ مغربی پاکستان میں حکومتی اختیارات بروئے کار لا کر بھٹو کو قائد عوام لکھوا لیا گیا جبکہ ٹرسٹ کے اخبارات مشرق ، امروز اور پاکستان ٹائمز نے اول روز سے بھٹو کے نام کے ساتھ قائد عوام کا لاحقہ لگانا شروع کر دیا تھا۔ مجھے یقین ہے یہ قرار داد منظور کرنے والوں کو اس سارے پس منظر کا علم نہیں ہو گا کہ بھٹو کس طرح سرکاری جبر کے طفیل قائد عوام بنا تھا۔

وہ ”معصوم“ اس حقیقت سے بھی آشنا نہیں ہوں گے بطور سول چیف مارشل لاء اور ایڈمنسٹریٹر، صدر پاکستان اور 1973ء کے آئین کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے 1977ء میں حکومت کے خاتمہ تک اپنے دور اقتدار میں ”جمہوریت کی دیوی“ کو مسلسل پابند سلاسل رکھا۔ قومی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے انسانی حقوق ، شہری آزادیاں ، اجتماع ، تحریر و تقریر کی آزادی پر قدغن لگانے کے لئے جو ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت ملک میں ہنگامی حالت نافذ کی تھی۔ 73ء کا آئین بننے کے دو ڈھائی گھنٹے بعد صدر فضل الٰہی چوہدری سے اس ہنگامی حالت کے مسلسل جاری رہنے کے آرڈیننس پر خود ایوان صدر جا کر دستخط کرائے تھے دلچسپ بات ہے اس ہنگامی حالت کو دوسرے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ختم کیا اور اس طرح بھٹو کے پورے دور میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی جدوجہد ازخود اختتام کو پہنچ گئی یہ اور بات صحافیوں، مزدوروں اور طالب علموں کے ساتھ سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کا دوسرا مرحلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جاری رہا۔

بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کے وابستگان کا محبوب لیڈر ہے وہ اسے دنیا کا عظیم ٹرین لیڈر قرار دیدیں۔ کوئی عظیم روحانی شخصیت کا روپ دیدیں ، اسے ہر انسانی خوبی کا مجسمہ اور ہر انسانی برائی سے پاک صاف قرار دیدیں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اگر پاکئی داماں کا حکایت بڑھا چڑھا کر پیش کی جائے تو بات دامن اور بند قبا تک تو جائے گی۔

اس مکان کو در نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو کے بعض معروف کارناموں کا حوالہ دے کر مجھے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ۔ ان شاء اللہ ان تمام معروف کارناموں کی حقیقت کو ٹھوس ثبوتوں اور ناقابل تردید واقعیاتی شواہد سے اجاگر کیا جائے گا تا ہم دوبارہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ بھٹو اپنی تمام اچھائیوں، برائیوں کے ساتھ اس آخری عدالت میں پہنچ گیا ہے اس کی شان میں مبالغہ آمیز قصیدہ خوانی کی بجائے دل کی گہرائیوں سے فاتح خوانی کیا کریں۔

’’فدایان‘‘ عمران میں نئے نئے داخل ہونے والے جھنگ کے شیخ وقاص اکرم نے طلعت حسین کے پروگرام میں کہا کہ موجودہ عدلیہ تگڑی ہو رہی ہے اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط اور بالخصوص جسٹس بابر ستار کے کردار کو ”تگڑی عدلیہ“ کا مظہر قرار دیا ہے ۔ جسٹس بابر ستار کے بیوی بچے باقاعدہ امریکی شہری امریکہ سے وفاداری کے حلف یافتہ خود جج صاحب امریکی گرین کارڈ کے حامل ، جناب کے گرین کارڈ کو ویزے کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ایک سفری سہولت تسلیم کر لیا گیا لیکن نواز شریف کے اقامہ کو سفری سہولت ہی تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ ایسا جرم سمجھا گیا جس کی سزا تاحیات نااہلی قرار پائی کیا یہ عدلیہ کے تگڑا ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔

عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔ جسٹس منیر سے جسٹس عمر عطاء بندیال تک تگڑی عدلیہ کا تسلسل جاری ہے ۔ عدلیہ کے سب سے زیادہ تگڑی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ پاکستان میں جنہیں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے وہ بھی اپنی طاقت عدلیہ سے کشید کرتے ہیں ایک فرد واحد آئین میں ترمیم کے لئے پوری پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت قوت و اختیار سے نواز دیا جاتا ہے۔ حکومتی سربراہی کا عہدہ بے توقیری کے گھاٹ اتر جاتا ہے جب وزراء اعظموں کو طلب کر کے عدالتی کٹہروں میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ آئین میں تشریح کے اختیار کو آئین میں ترمیم کے اختیار میں تبدیلی صرف تگڑی عدلیہ ہی کے لئے ممکن ہے۔

یہ جو ثاقب نثار سے عمر عطاء بندیال تک اور اب اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران اور پی ٹی آئی کو ملنے والے ریلیف کے تاثر سے شاید شیخ وقاص اکرم نے یہ سمجھا کہ اب عدلیہ تگڑی ہو رہی ہے ایسا نہیں ہے عدلیہ ہمیشہ سے تگڑی تھی ، تگڑی ہے اور تگڑی رہے گی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے وہ جج صاحبان جن میں عدلیہ کو بدستور تگڑا رکھنے کی جان نہیں تھی وہ عدلیہ کی ”گود“ سے اترتے رہے ہیں یہ تو مجھ جیسے بے حیثیت شخص سمیت اس ملک کے بائیس کروڑ سے زائد عوام کا فخر ہے کہ الحمد للہ ہم ایک تگڑی عدلیہ کی تگڑی تاریخ رکھتے ہیں اور یہ جو عالمی ریٹنگ میں عدلیہ کے حوالہ سے 139 واں نمبر چلا گیا ہے یہ ریٹنگ کا فیصلہ کرنے والے کافروں کے مسلمانوں سے تعصب کا نتیجہ ہے اسے درخوراعتنا نہیں سمجھنا چاہئے۔