محترمہ مریم نواز۔۔ نظرِ کرم کے منتظرفیصل آباد کے صحافی

صحافت کوئی عام پیشہ نہیںہے بلکہ یہ جہاں روزی کمانے کا ذریعہ ہے وہاں اس سے روح کی تسکین بھی ہوتی ہے، وہاں اس سے انسان کو روحانی مسرت بھی حاصل ہوتی ہے، اسی لئے اسے پیشہ نہیں تحریک کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کو صحیح طریقہ سے سرانجام دے اور اس پیشے کی جو مقتضیات ہیں ان کو پورا کرے تو یہ ذریعہ روزگار کے ساتھ ساتھ ذریعہ عبادت بھی بن سکتا ہے۔ صحافی معاشرے کا وہ فرد ہے جو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں کو اجاگر کرتا ہے تا کہ عوامی مسائل سے اربابِ اختیار روشناس ہو سکیں اور ان کے حل یا تدارک کے لئے اقدامات کرنے کے قابل ہو سکیں جس سے عام افراد کی زندگیوں میں سدھار لایا جا سکے۔ اس کے لئے ایک جرنلسٹ ہر قسم کی مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں معاشرتی قدریں ابھی اتنی پختہ شکل اختیار نہیں کر سکی ہیں اس لئے تنقید خواہ وہ تعمیری ہی کیوں نہ ہو اس کو پسند نہیں کیا جاتا ہے، اس لئے اہلِ صحافت کو ملک میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے جو کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے صحافیوں کو حاصل ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ لوگ حتیٰ کہ معاشرے کا بااثر طبقہ کو بھی جب کسی قسم کے سماجی جبر کا سامنا ہوتا ہے تو اہلِ صحافت کی طرف دیکھتے ہیں لیکن جب ان افراد کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف ان کے اس عمل کو بھول جاتے ہیں بلکہ صحافتی اقدار کا مذاق اڑانے سے بھی اجتناب نہیں کرتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں سوچا جاتا کہ صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے کن کن مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجھ سے جب بھی کوئی نوجوان طالب علم صحافت کے پیشہ کو اختیارکرنے کے بارے میں رائے مانگتا ہے تو میں اسے ایک ہی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ صحافت کے پیشے کو اپنانے سے پہلے سو بار سوچے کیونکہ صحافت ایک مشکل پیشہ ہے ایک صحافی کے لئے ز ندگی کی تمام رعنائیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ کامیاب صحافی کہلانے کے لئے اسے بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ایک جرنلسٹ کی زندگی میں خوشگوار لمحات کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کے دوسرے طبقات کی طرح زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے میں ایک نجی قومی چینل سے وابستہ تھا تنخواہ نہ ہونے کے برابر لیکن آدھی رات کو بھی ایک ایس ایم ایس کر کے مجھے جگا لیا جاتا تھا اور پھر فجر تک پیشہ ورانہ امور انجام دینا پڑتے تھے۔

اگر ہم فیصل آباد کی صحافتی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو گزشتہ سات دہائیوں میں فیصل آباد نے بڑے بڑے نامور صحافی پیدا کئے جو آج کراچی، لاہور، اسلام آباد میں آسمانِ صحافت پر نمایاں ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ آج بھی یہاں مقامی سطح پر بہت سے صحافی نمایاں کام کر رہے ہیںلیکن ان کی زندگیاں کسم پرسی میں گزر رہی ہیں، تقریباً کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوتا کہ ان کی نظروں سے پوشیدہ رہ جائے ہر چیز ان کے کیمرے کے فوکس اور قلم کی نوک کے نیچے سے گزرتی ہے لیکن ان کے حالات کا موازنہ اگر ملک کے دوسرے بڑے شہروں کے صحافیوں سے کریں تو ان کو زندگی میں وہ آسودگی حاصل نہیں جو وہاں کے صحافیوں کو حاصل ہے یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے محل نہیں ہو گا جب میں نے آج سے پندرہ سال قبل ایک قومی اخبار میں لکھنا شروع کیا تو مجھے یہی مشورہ دیا گیا کہ میں یہاں سے لاہور اسلام آباد منتقل ہو جاؤں تب ہی میرا کچھ نام بن سکے گا لیکن میں نے ان تمام قابلِ قدر ساتھیوں کی بات نہیں مانی اور اپنے شہر میں رہ کر کام کیا ۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فیصل آباد کے صحافیوں کو ہر جگہ نظر انداز کیا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہی کیا کم ہے کہ ملک کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں صحافی کالونیاں بن چکی ہیں لیکن فیصل آباد جو ایک کروڑ کی آبادی والا ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے یہاں کے صحافی آج بھی ایک گھر بنانے کو ترس رہے ہیں۔

فیصل آباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں جاپان کے ایک شہر کے بعد یہاں سب سے زیادہ لوکل اخبار شائع ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق فیصل آباد شہر سے 7800مقامی اخبارات کے ڈیکلیریشن حاصل کئے گئے ہیں جن میں اکثریت روزانہ کی بنیادوں پر شائع بھی ہو رہے ہیں اس قدر بڑھیا صحافتی سرگرمیوں کے حامل شہر کے صحافی زندگی کی بنیادوں ضرورتوں سے ناآشنا ہیں۔فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ جب وزیرِ قانون پنجاب تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ اور آپ کے چچا جناب میاں شہباز شریف تک ہمارا یہ دیرینہ مسئلہ پہنچایا کہ فیصل آباد ہی صرف ایک ایسا شہر ہے جہاں کے صحافی آج تک اپنا گھر بنانے سے محروم ہیں اور انہوں نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور فیصل آباد کے صحافیوں کے جرنلسٹ کالونی کے دیرینہ مسئلے کو منظور کرتے ہوئے صحافی کالونی کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے غالباً کوئی زمین بھی الاٹ کر دی لیکن ابھی تک صحافیوں کو پلاٹ الاٹ نہیں ہو سکے۔ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں اور امید بھی کرتے ہیں کہ جس عظیم کاوش کا میاں شہباز شریف نے آغاز کیا تھا وہ اب جلد از جلد آپ کے ہاتھوں منطقی انجام کو پہنچے اور فیصل آباد کے صحافی بھی اس قابل ہو سکیں گے کہ ذاتی چھت اور چاردیواری کے احساس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ میڈیا ایک بہت بڑی قوت ہے اور قوت کا استعمال تب ہی درست طور ہو سکے گا جب اہلِ صحافت معاشی مسائل سے مبرا ہوں گے۔ اگر صحافی مالی مسائل کا شکار ہوں گے تو اس قوت کا استعمال بے ایمانی اور بد دیانتی سے ہونے لگے گا۔ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور اس کا کام نظام کی نگرانی کر نا ہے کہ آیا وہ ٹھیک سے اپنا کام کر رہا ہے یا نہیں اگر انہیں معاشی مسائل درپیش ہوں گے تو وہ یہ کام خوش اسلوبی سے نہیں کر سکیں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اخبارات روز مرہ کے واقعات کے تناطر میں تاریخ کا مواد عوام تک پہنچاتے ہیں اور یہ کام ورکنگ جرنلسٹ شب و روز محنت سے کرتا ہے۔ سول سوسائٹی کے اہم رکن کی حیثیت سے ان کے تاریخ سازی میں کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ آپ کے والد جناب میاں نواز شریف صاحب سے زیادہ کوئی آزادیٔ صحافت کا علمبردار نہیں ہے اور کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی ایسی کوششوں سے ہی عوامی صحافت فروغ پاتی ہے۔ فیصل آباد کے صحافی آپ کے خاندان کے بہت قریب ہیں اور میاں نواز شریف صاحب کی جمہوریت کے لئے دی گئی قربانیوں کو سمجھتے ہیں اور کسی بھی مشکل میں اپنے تئیں پوری طرح ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح میاں صاحب بھی آزادیٔ صحافت کی جد و جہد میں صحافیوں کے ہم قدم رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ بھی اپنے والدِ محترم جناب میاں نواز شریف کے نقشِ قدم پر وہی سوچ رکھتی ہیں کہ صحافی محض قلم کے دھنی ہوتے ہیں اور اگروہ پھلیں پھولیں گے، حقوق حاصل کریں گے، جب صحافیوں کی زندگیوں میں استحکام آئے گا تو وہ وطنِ عزیز کی بہتر طور پر خدمت کر سکیں گے۔