سوچ لیں کرناکیا ہے ؟

ملکی حالات سے ایسا لگتا ہے سنوارنے کے بجائے معاملات بگاڑنے میں ہم زیادہ دلچسپی لیتے ہیں حالانکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کاتقاضا ہے کہ فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اُٹھانے سے قبل نفع و نقصان بارے غورکرلیا جائے وائے افسوس کہ حکومتی اقدامات سے دھونس کا تاثر گہراہو رہا ہے آزاد کشمیر میں رواں ہفتے جواحتجاج ہواہے یہ عوامی غم و غصہ کا نتیجہ تو ہے ہی لیکن اِس غم و غصے کوفزوں تر کرنے میں حکومتی حماقتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف معصوم انسانی جانیں چلی گئیں بلکہ آزادکشمیر کے طول و عرض میں پاکستان بارے نفرت کاایسا زہر پھیلایا جا چکا ہے جسے شاید کئی دہائیوں تک ختم نہ کیاجاسکے کشمیرمیں قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اہلکاروں سے جو سلوک ہوا وہ ریاست پر کمزور ہوتے عوامی اعتماد کا عکاس ہے اسی بنا پر لوگ انصاف لینے کے لیے احتجاج اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں کاش ایسی نوبت نہ آتی اور حکومتی حلقے کشمیر کی حساسیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بروقت ایسے اقدامات کرتے جس سے کشمیر کا سکون غارت نہ ہوتا۔

کیابااختیار حلقوں کو معلوم نہیں کہ بلوچستان میں نفرت کی آگ اِس حد تک پھیلتی جارہی ہے کہ اب لسانی تعصب کی وجہ سے انسانی خون بہایا جارہا ہے؟ مگر اِس سلسلے کو روکنے کے لیے حکومتی رَٹ نہ ہونے کے برابر ہے کے پی کے جیسا حساس صوبہ مسلسل کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے علاوہ ازیں ڈھیروں قربانیاں دینے کے باوجودیہاں ریاستی اِداروں سے نفرت بڑھتی جارہی ہے پنجاب میں بھی اب صورتحال مثالی نہیں رہی جبکہ سندھ میں مرکز گریز قوتیں تو برسوں سے مصروفِ عمل ہیں گلگت بلتستان میں بھی وقفے وقفے سے انارکی و تشدد کی لہر سر اُٹھاتی رہتی ہے ایسے میں نہ جانے کس کی ایما پر آزادکشمیر میں حکومتی تبدیلی کا منصوبہ پروان چڑھایا گیا ؟اور غیر مقبول ایک کٹھ پتلی ایسی حکومت بنوائی گئی جس کی عوام میں جڑیں نہیں آزاد کشمیر میں جب بجلی اور مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاج نے جنم لیا تو حکمران عوامی نمائندے منظرسے غائب رہے پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر آزاد کشمیر میں ایک مقبول حکومت ہوتی تو عوامی غم و غصہ انتہا کو نہ پہنچتا اور نہ ہی احتجاج و تشدد انسانی خون سے رنگین ہوتا احتجاج کی ایک وجہ عوامی مرضی و منشا کے منافی حکومتی تشکیل ہے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جسے بااعتمادجان کر وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھین کر پیش کیا گیا وہی انوارالحق بڑی معصومیت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں اسلام آباد سے کس نے رینجرز کوآزاد کشمیر بھیجنے کا حکم دیا یہ معصومیت دراصل واقعات سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی چالاکی ہے لیکن اِس طرح انہوں نے کشمیر کے معاملے میں پاکستانی موقف کو کمزور کیا ہے اب وطن دشمن عناصر کو کہنے کا جواز ملے گا کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر میں عوامی قیادت بااختیار نہیں تو آزادکشمیر میں بھی کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے بلکہ دونوں طرف یکساں حالات ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف جلدیہ سوچ لیں کہ کرنا کیا ہے بلکہ ضد ،تکبر چھوڑکر یقین کر لیا جائے کہ ہر مسئلہ ڈنڈے سے حل نہیں ہوتا اور اللہ کی دی ہوئی عقل سے کام لینے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے سے بہتری لائی جا سکتی ہے محض میڈیا بلیک آئوٹ سے حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔

جو ملک وملت سے مخلص نہیں اُسے یہاں سیاست کرنے اور عوامی نمائندگی کا کوئی حق نہیں مگر ہر جگہ متبادل تلاش کرنا اور تابعداری کی تمنا بھی حماقت ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کامتبادل ایم کیوایم کی سرپرستی کا نتیجہ ہم بھگت چکے کل کی منظورِ نظر ایم کیو ایم آجکل رائندہ درگاہ ہے جو مقتدرحلقوں کی پالیسی کوغلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اب بھی وقت ہے طے کر لیںکہ ملک کو چلانا کیسے ہے؟اور کس قسم کے لوگوں کو حقِ نمائندگی دینا ہے ؟سچ یہی ہے کہ آزادکشمیر میں جن پر اعتماد کرتے ہوئے اقتدار و اختیارسونپا گیا ضرورت کے وقت وہ ناکارہ ثابت ہوئے کیونکہ اُن کی عوام میں جڑیں ہی نہیں اسی لیے ہنگامے پھوٹتے ہی اسلام آباد بھاگ آئے لہٰذا بہتر ہے تسلیم کرلیں آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے کا تجربہ بُری طرح غلط ثابت ہو چکا ہے اسی تجربے کی وجہ سے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے نامی گرامی اور تجربہ کار چہرے جماعت کو چھوڑکر الگ ہو ئے اب اِس جماعت میں ناتجربہ کاراور جذباتی لوگ اہم حیثیت اختیار کر چکے ہیں جوہر جگہ ہوش کے بجائے جوش کامظاہرہ کرتے ہیں ایسے ہی جذباتی لوگوں نے آزاد کشمیر میں اودھم مچایا اور احتجاج کا ایندھن بنے جس سے پُرامن احتجاجی تحریک انسانی خون سے رنگین ہو ئی اب بھی وقت ہے طریقہ کارمیں تبدیلی کر لیں اور تابعدار قسم کی پنیری لگانے سے قبل سوچ لیا کریں کہیں تابعدار پنیری کسی مشکل وقت میں فائدے کے بجائے بوجھ بن کر نقصان کا موجب تو نہیں بن جائے گی؟۔
بجلی اور مہنگائی کی آڑ میں شرپسندوں نے آزاد کشمیر میں ملک سے نفرت کاجو زہر پھیلا دیا ہے اُس کا جلد تریاق تلاش کرنے کی ضرورت ہے ملک کی 75سالہ تاریخ میں پہلی بار ریاست میں آزادی کے نعرے بلند ہوئے اور اِن نعروں کی گونج صرف آزاد کشمیر کی حد ودتک محدودنہیں رہی بلکہ پاکستان کے تعلیمی اِداروں میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبا بھی نعرہ زن رہے حالانکہ بتانے والی بات یہ ہے کہ یہ جو ملک کو بجلی فراہم کرنے کی کہانی سنائی جاتی ہے اِس میں حقیقت کم اور زیبِ داستان زیادہ ہے منگلا کی زمین کے عوض بھاری رقوم اور یورپ کے ویزے ملے آج بھی خوراک اور ملازمتوں کی فراہمی میں کشمیریوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیا ایل او سی سے آنے والی لاشوں کے باجود پنجابیوں، بلوچیوں اور پختونوں نے کبھی کوئی شکوہ کیا؟ بلکہ اہلِ کشمیر کی حفاظت کا فریضہ پورا پاکستان بخوشی سرانجام دے رہا ہے تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو محرومیوں کا رونا رو تے وطن دشمن عناصر کی سازشوں میں معاون ہیں ایسے لوگوں کو نہ صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اُن کے پرپیگنڈے کاجلد توڑ بھی اشدضروری ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب طریقہ کار بنا کر اُس پر عمل کیا جائے یادرہے پاکستان ہماری شناخت ہے اِس شناخت کو راہ بھٹکے چند شرپسند نقصان پہنچانے کے درپہ ہے جنہیں برداشت کرنا یا ڈھیل دینا سودمند نہیں۔

آزادکشمیر میں آٹا اور بجلی سستی کرنے کے تمام مطالبات منظورکر لیے گئے ہیں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اِس حوالے سے 23ارب روپے کی منظوری دیدی ہے جس کے تناظر میں ریاست میں فائن آٹے کی قیمت دوہزار من مقررکرنے کا محکمہ خوراک نے حکم نامہ بھی جاری کر دیا ہے اسی طرح بجلی کے حوالے سے بھی تاریخی ریلیف پیکیج دیا گیا ہے مگر خدشہ ہے کہ ریلیف سے احتجاج کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ملک کے دیگر حصوں کے لوگ بھی آزاد کشمیرکی طرح حکومت کو بلیک میل کرنے کا راستہ اپنا سکتے ہیں اور مہنگائی وغیرہ کے خلاف سڑکوں پر آسکتے ہیں لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ ریلیف دینے کے لیے حکمران احتجاج کا انتظارنہ کیا کریں بلکہ عوامی فلاح کے منصوبوں کے اجرا کو یقینی بنایا کریں یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ سوچ لیا گیا ہے جب تک عوام سڑکوں پر نہیں آئیں گے کسی کو ریلیف نہیں دینا آزاد کشمیر کی صورتحال سے توایسا ہی تاثر ملتا ہے۔