اگلے روز میں نے اپنے گھر پر کراچی سے آئے ہوئے اپنے ہیرو بھائی احسن خان کے اعزاز میں لنچ کا اہتمام کیا، دنیا لالے عطا اللہ عیسی خیلوی کی مداح ہے اور وہ احسن خان کے مداح ہیں، وہ ہمیشہ اسے بہت اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، چنانچہ میں نے سوچا اس لنچ میں لالے کو بھی مدعو کیا جائے، ان کے علاوہ ہماری دم توڑتی ہوئی تہذیب اور ثقافت کو آکسجن فراہم کرنے والے میاں یوسف صلاح الدین اور والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے سربراہ کامران لاشاری بھی تھے، پاکستان کے کئی بدصورت مقامات کو انتہائی خوبصورت بنانے میں کامران لاشاری کا کردار اب بھی زندہ ہے، تاریخ میں بھی ہمیشہ زندہ ہی رہے گا، اس سے ایک روز پہلے سوشل میڈیا پر سارا دن لالے عطا اللہ عیسی خیلوی کی وفات کی شرانگیزی پھیلائی جاتی رہی، یہ شرانگیزی یقینا ان لوگوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہے جو لالے کے لازوال فن سے خوفزدہ ہیں، رہنا ہمیشہ کسی نے یہاں نہیں ہے، لالہ مر بھی گیا اس کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا، محمد رفیع ، مکیش ، کشور جی ، ملکہ ترنم نورجہاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن سب چلے گئے ان کی آوازیں ان کا فن نہیں گیا، مگر یہ جو شرپسند صاف چھپتے بھی نہیں سامنے بھی نہیں آتے ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے، یہ کسی بدترین ذہنی مرض میں مبتلا لوگ ہیں جنہیں جھوٹی خبریں پھیلا کر راحت ملتی ہے، اب کون اْنہیں سمجھائے بھائی اگر جھوٹ بول کے ہی آپ کو سکون ملتا ہے تو اس طرح کے جھوٹ بول لیا کریں کہ میڈم نورجہاں زندہ ہو گئیں اور انہیں لبرٹی میں شاپنگ کرتے دیکھا گیا یا نصرت فتح علی خان کو ریس کورس میں واک کرتے دیکھا گیا، مگر منفی ذہنیت کے حامل لوگ ہمیشہ ایسی خبریں پھیلاتے ہیں جن سے لوگوں کے دل دکھتے ہیں، کچھ لوگ لالے سے نہیں اس کے فن سے خوفزدہ ہیں، ایک دلچسپ واقعہ سن لیں، پچھلے سال ساؤتھ پنجاب کے ایک ضلع میں میرے ایک عزیز کی شادی تھی جہاں میں نے لالے سے گزارش کی وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں، میں نے اس ضلع کے ڈی پی او سے گزارش کی وہ اْن کی سکیورٹی کا بندوبست فرما دیں ، انہوں نے فرمایا بھائی آپ بالکل بے فکر ہو جائیں، جس روز فنکشن تھا مجھے ڈی پی او کی کال آگئی، فرمانے لگے ”آپ کو پتہ ہے سوشل میڈیا کا دور ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہماری پکڑ ہو جاتی ہے، آپ سے گزارش ہے پولیس کی موجودگی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے جو ہمارے لئے کسی نقصان یا شرمندگی کا باعث بن جائے“ ، میں نے ان سے کہا ”آپ بالکل بے فکر ہو جائیں ایسا کچھ نہیں ہوگا، پولیس کی موجودگی میں فائرنگ تو دور کی بات ہے آتش بازی بھی نہیں ہوگی، دیہاتوں میں وقت اور ون ڈش کی پابندی کوئی نہیں کرتا، ہم یہ پابندی بھی کریں گے“ وہ بولے ”فائرنگ شائرنگ یا دیگر پابندیوں کا کوئی مسئلہ نہیں اصل مسئلہ یہ ہے وہاں پولیس کی موجودگی میں لالہ عطا اللہ عیسی خیلوی کہیں یہ گانا نہ گا دیں ”جب آئے گا عمران، بنے گا نیا پاکستان“، میں نے ان کی یہ بات سن کر ایک زور دار قہقہہ لگایا اور ان سے کہا ”میں یہ گارنٹی بھی دیتا ہوں وہ یہ گانا نہیں گائیں گے“، میں نے سوچا یہ کتنے بزدل لوگ ہیں، فائرنگ سے نہیں ڈرتے جس سے کسی کی جان جا سکتی ہے، یہ لالے کے ایک ایسے گانے سے ڈرتے ہیں جو مردہ دلوں میں جان ڈال دیتا ہے، ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، ہم نے یہ بات صرف سن رکھی ہے اس کا عملی مظاہرہ آج تک نہیں دیکھا، بلکہ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا ہماری ریاست تو سوتیلی ماں جیسی بھی نہیں ہے، یہ تو کوئی ڈائن ہے جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے، ریاست کا خوف اگر اس کے شاعروں ادیبوں مصوروں فنکاروں گلوکاروں اور اس ٹائپ کے دیگر معصوم لوگوں میں پیدا ہو جائے پھر اْس معاشرے میں صرف درندے پیدا ہوتے ہیں، تتلیاں، جگنو، فاحتائیں، بلبلیں سب وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں، پھر وہاں چیلیں گدیں، کوے کتے اور گدھے ہی گدھے ہر طرف آپ کو دکھائی دیتے ہیں ، یہاں لوگوں کے لکھنے پر پابندی لگائی جارہی ہے ان کے گانے پر پابندی لگائی جارہی ہے ان کے بولنے پر پابندی لگائی جارہی ہے ، حتی کہ ”ایاک نعبد و ایاک نستعین“ کہنا بھی محال ہو گیا ہے، اس کے بعد لوگوں کی سوچوں پر پابندی لگانے کا کوئی نہ کوئی پلان بھی کہیں نہ کہیں یقینا زیر غور ہوگا، پھر ہو سکتا ہے اس کے بعد لوگوں کی آنکھوں میں ایسے لینز ڈالنے کا اہتمام کیا جائے جس کے بعد انہیں سرکار یا ریاست کی ہر خرابی اس کی خوبی لگنے لگے، جہاں تک لالے کی موت کی جھوٹی شر انگزی پھیلانے والوں کا معاملہ ہے ان کے لئے یہی سزا کافی ہے ان کی پھیلائی ہوئی شرانگیزی فوراً دم توڑ جاتی ہے لالہ زندہ رہتا ہے، ”ہر گھر سے لالہ نکلے گا تم کتنے لالے مارو گے“، اس ملک میں مرنے کے بعد زندہ رہنے کا حق صرف بھٹو حاصل نہیں ہے ، میں نے لالے عطا اللہ عیسی خیلوی سے کہا’’اب جب بھی سوشل میڈیا پر آپ کے مرنے کی خبر مجھے ملتی ہے میں آپ کو کال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کیونکہ مجھے پتہ ہوتا ہے یہ جھوٹی خبر ہے“، لالے نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ”تم اختیاطاً کال کر لیا کرو کہیں یہ نہ ہو خبر واقعی درست ہو اور تم میرے جنازے میں شرکت سے رہ جاؤ“، میں نے سوچا مرنا تو سبھی نے ہے مگر اللہ یہ دن ہمیں کبھی نہ دیکھائے ہماری لوک ثقافت یا لوک ورثے کا جنازہ ہمارے کاندہوں پر ہو ، لالے کے ہزاروں گانے لوگوں کے خاص طور پر اداس لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں، سماء نیوز کے عید شو کی ریکارڈنگ میں احسن خان نے لالے سے سوال کیا ”آپ زیادہ تر اداس گانے کیوں گاتے ہیں ؟“، لالہ بولے ”میں اپنے جیسے لوگوں کے لئے گاتا ہوں“، اداسی لالے کے گانوں سے اس حد تک جڑ گئی ہے ایک بار ایک تقریب میں لالے کے اس گانے ”قمیض تیری کالی نی سوہنے پھلاں والی“ پر بھی ایک خاتون کو زاروقطار روتے دیکھا، میں نے اس خاتون سے پوچھا ”یہ تو خوشی کا گانا ہے آپ کیوں رو رہی ہیں ؟“، وہ بولی ”چند برس پہلے میں نے سوہنے پھلاں والی قمیض پہنی تھی میرے شوہر نے میری بہت تعریف کی انہوں نے کہا یہ قمیض تم پر بہت سجی ہے اس سے اگلے روز ان کا انتقال ہوگیا“، میں نے عرض کیا ”اس میں قصور لالے کے گانے کا نہیں آپ کے شوہر کا ہے جسے آپ کی تعریف کرنے کا خمیازہ اگلے ہی روز بھگتنا پڑ گیا“۔