بحران کا حل، ڈائیلاگ نہیں، ٹرائل!

صحافتی سفر کا آغاز تھا، بہت جونیئرپوزیشن تھی، معلومات کا گوشہ خانہ تصرف میں تھانہ ہی تجزیہ وادراک کے محاکم دسترس تھی ،کسی بھی اہم خبر یا واقعہ کی حقیقت جاننے اور پس منظر کی گہرائیوں کو سمجھنے کیلئے سینئرز کی پرشفقت رہنمائی ہی مشعل راہ تھی۔ جنگ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شورش ملک شکل دیکھتے ہی نئی سگریٹ سلگا کر پوچھتے آج کیا پڑھ لیا ہے پھر ایک شفیق استاد کی طرح تفصیل سے رہنمائی فرماتے میرے لیے زیادہ تر مغز کھپائی کے مرحلے سے گزرتے ان میں نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب ہدایت اختر اے پی پی کے جناب محمود احمد اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کے والد اور پاکستان ٹائمز کے جناب شبیر شاہ شامل ہیں یہ حضرات شام کو راولپنڈی صدر میں واقع سلورگرل ریسٹورنٹ میں محفل جماتے، ہفتے دس دن میں کوئی معاملہ لے کر پہنچ جاتا بڑی پر شفقت مسکراہٹ کے ساتھ پذیرائی ہوتی۔ ان دنوں جنرل ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا اخبارات میں چرچا تھا۔ آج کی طرح ٹی وی چینل نہیں تھے۔ تمام اپوزیشن لیڈروں نے اس گول میز کانفرنس میں شرکت کو شیخ مجیب الرحمن کی رہائی سے مشروط کردیا تھا۔ جواگر تلہ سازش کیس میں گرفتار تھے، یہ معاملہ ان سینئرز کے سامنے رکھا تو خوش ہوئے کہ صحافی کو ایسے معاملات زیرغور لانا چاہئے۔ اور فرمایا ہم اسی پر بات کررہے ہیں۔ مبتدی سے بڑے انہماک سے ان کی تجزیاتی گفتگو سنی جس کا خلاصہ یہ تھا اپوزیشن لیڈروں کے پیش نظر دونکات ہیں اول یہ کہ جنرل ایوب خان کے سیاسی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کا تاثر قائم کرکے اسے لچک پر آمادہ کیاجائے دوسرے ان کے مطالبے پر شیخ مجیب الرحمن کی رہائی سے عوامی لیگ کے کارکنوں کا اشتعال اعتدال پر آئے گا اور مغربی پاکستان کیلئے خیر سگالی کا جذبہ پرواں چڑھے گا۔ جبکہ یہ تینوں صحافتی لیجنڈ اس سے متفق نہیں تھے، ان کی رائے تھی کہ جنرل ایوب خان سے سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس بلاکر اپنی سیاسی کمزوری کا برملا اظہار کردیا ہے اسے مزید دباؤ میں لانے کی بجائے اس موقع کو ملک میں سیاسی عمل کی بحالی کیلئے استعمال کریں۔ شفاف الیکشن کا مطالبہ منواکر جمہوریت کی بحالی کی راہ ہموار کریں۔ ان کی رائے تھی کہ اس طرح شیخ مجیب الرحمن کو گول میز کانفرنس میں شریک کرنے سے عوامی لیگ کے حامی اور کارکن شیخ مجیب الرحمن کو ناقابل تسخیر سیاسی قوت سمجھ کر زیادہ جارح ہوسکتے ہیں ان سینئرز کی رائے تھی کہ جنرل ایوب خان سے شفاف الیکشن کا مطالبہ منوایا جائے اور انتخابات کا اعلان ہونے پر شیخ مجیب الرحمن کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے صحافت پر رہا کیا جائے اس الیکشن کے نتیجے میں اگر عوامی لیگ اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اسے اقتدار منتقل کردیا جائے۔شیخ مجیب الرحمن کی ضمانت پر رہائی اور انتخابی مہم میں شرکت سے کارکنوں کا اشتعال انتخابات جیتنے کی جدوجہد کا رخ اختیار کرکے بھولی داستان بن جائے گا۔ تمام سیاستدان بہت زیرک اور سیاسی دانش سے مالا مال ہیں مگر ان سینئرز کی رائے میں ان کا شیخ مجیب الرحمن کو مطالبے پر گول میز کانفرنس میں لانا مثبت نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔

پھر وقت نے ان صحافتی لیجنڈز کی رائے کو درست ثابت کیا۔ یہ بھولی بسری یادتحت الشعور سے رانا ثناء اللہ کے ایک جملے سے شعور میں آگئی ایک ٹی وی شو میں رانا ثناء اللہ نے کہا ’’گرینڈ ڈائیلاگ کیلئے ماحول ساز گار بنانے کیلئے عمران کی ضمانت پر رہائی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے اور نوازشریف اس بات کیلئے تیار ہیں۔‘‘اس جملے کے پانچ الفاظ بہت زیادہ معنی خیز ہیں یعنی ’’سوا کوئی آپشن نہیں ہے‘‘یہ پانچ الفاظ مایوسی، بے بسی اور شکست خوردنی کے واضح مظہر ہیں، اس کا مطلب ہے عمران ایک ایسی ’’سیاسی قوت‘‘ ہے حالات کی بہتری کی کنجی جس کے ہاتھ میں ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا عمران سیاسی لیڈروں سے بات کرنے پر آمادہ ہے ایک لمحے کیلئے بھی وہ عسکری قیادت کے سوا کسی سے بات کرنے کا روادار نہیں ہے۔ نہ ہی پی ٹی آئی کے کسی تیسرے درجے کے لیڈر نے سیاسی ڈائیلاگ پر آمادگی کا اشارہ دیا ہے۔

عمران کے اب تک کے رویوں اور طرزعمل کا جائزہ لیا جائے تو وہ گرینڈڈائیلاگ اور اس مقصد کیلئے ضمانت پر رہائی کو IN GOOD FAITH کبھی نہیں سمجھے گا کیونکہ وہ تو "Good to See You” کو ہی بہتر سمجھتا ہے، بلکہ یہ عمل کارکنوں کو اور آپے سے باہر کردے گا۔ بیرسٹر گوہر، علی امین گنڈاپور، شیرافضل مروت اور لطیف کھوسہ جیسے اپنے غیر بیانیے کیلئے اسے عمران کی فتح عظیم، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی عبرت ناک ہزیمت کا رنگ دیں گے ، میاں نوازشریف کی ملکی بہتری کی خواہش اپنی جگہ لاکھ لائق تحسین مگر آگے بندہ بھی تو دیکھا جائے۔ گرینڈ ڈائیلاگ کا سازگار ماحول تب بنے گا جب عمران پر واضح کیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بات چیت سیاسی پلیٹ فارم پر ہوگی۔ دوسرے عمران سے بات چیت کیلئے واضح ایجنڈا لیا جائے آخر وہ دراصل چاہتا کیا ہے ۔ جو بات چیت کی بنیاد بن سکے۔ ایسی حکمت عملی اختیار کئے بغیر عمران کو گرینڈ ڈائیلاگ کی میز پر لانا جنرل ایوب کی گول میز کانفرنس کی تاریخ دہرانے کے مترادف ہوگا اور اس کے نتیجے میں ایک اور شیخ مجیب جنم لے گا۔ یاد رہے شیخ مجیب نے ایک مرتبہ بھی نہ گول میز کانفرنس کا مطالبہ کیا تھا نہ اس میں مشروط یا غیر مشروط شرکت کی کسی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اس سے گول میز کانفرنس کے ایجنڈے پر اتفاق رائے کرائے بغیر اسی طرح اس کی شرکت کو ’’اس کے سوا کوئی آپشن نہیں جان کر یقینی بنایا گیا تھا جس طرح اب عمران کے حوالے سے ’’کوئی آپشن نہیں‘‘ کی لاچاری کا اظہار کیا جارہا ہے۔

9 مئی سمیت جہاں تک دیگر کیس لٹکے ہوئے ہیں اس حوالے سے لوگوں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ لوگ بعض کرداروں کے رویوں اور طرز عمل کے عمیق جائزہ کے ساتھ تمام جزیات بھی محفوظ کی جارہی ہیں آخر ایک دن انہیں ریٹائرتو ہونا ہے اور جب اس طرح حساب چکایا جائے تو تاریخ گواہ ہے پھر بے توقیری نسلوں تک پھیل جایا کرتی ہے۔

یہ سطور یہاں تک پہنچتی تھیں کہ خبر آگئی پی ٹی آئی نے رانا ثناء اللہ کی گرینڈ ڈائیلاگ کی مسترد کردی اور اس اندازے کی توثیق ہوگئی کہ عمران سیاسی بات چیت کی بجائے ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو زیردباؤ لاکر ’’سیاسی سی محبت‘‘ کی خواہش کا اسیر ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی ایڈیٹروں سے ملاقات میں مجید نظامی سے کہا آپ نے کوئی سوال نہیں کیا اس پر مجید نظامی نے برجستہ سوال کیا ”ساڈی جان کدوں چھڈوگے“ (ہماری جان کب چھوڑوگے) اب اسٹیبلشمنٹ سے دست بستہ گزارش کرلی جائے، عالی مرتبت، سیاست میں مداخلت چھوڑنے کا اعلان کیا ہے تو اس حوالے سے تاثر کو بھی نابود کردیا جائے۔ یہ نسلوں پر احسان ہو گا۔

گرینڈ ڈائیلاگ کی پیشکش یا تجویز مسترد کئے جانے کے بعد کوئی ابہام نہیں رہنا چاہئے کہ عمران ملک کے نظام کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے اس مقصد کیلئے امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے بالواسطہ سہولت کاری کا کردار ادا کررہا ہے کچھ دنوں میں آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پاکستان پر نئی شرائط لاگو کی جائیں گی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، پنشنروں پر ٹیکس، کئی شعبوں میں سبسڈی کا خاتمہ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں مزید اضافہ ، حکومت کے خلاف عوامی غم وغصہ میں اضافہ، جیسے مزید ہوا دے کر ملک میں انارکی کی فضا پیدا کرکے جاری نظام کے خاتمہ کی کوشش اس ممکنہ انارکی میں تشدد کا عنصر شامل ہونا لازمی ہے جس میں لوگوں کے بچے مرتے ہیں تو مریں اپنے بچے تو لندن میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اور نظام تہہ وبالا ہوا تو رہائی تو لازمی نتیجہ ہوگا۔ ایک ممکنہ بھیانک نتیجہ عوام اور سلامتی کے اداروں کے مابین فاصلوں کی خلیج میں وسعت، اس صورتحال میں یہ خطرناک اطلاعات کہ بلوچستان کے بعد طالبان نے جنوبی پنجاب میں بھی اپنا نیٹ ورک پھیلانا شروع کردیا ہے پاکستان کیلئے غور طلب ہونا چاہئے ۔لمحہ موجود میں یہ سب دور ازکارخدشات جان کر نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن یادرہے حادثہ ایک دم نہیں ہوتا وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔

رانا ثناء اللہ کے نزدیک عمران اگر گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے جبکہ میرے نزدیک 9مئی کے مجرموں کو کیفر کردارتک پہنچا کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا واحد آپشن ہے۔ اس سلسلے میں عدالتی سہولت کاری کا تاثر ختم کرنے پرنتیجہ خیز توجہ بھی ضروری ہے جب تمام ثبوت وشواہد موجود ہیں تو ٹرائل میں غیر ضروری تاخیر کیوں ہورہی ہے یہ سوال اٹھاتا عدالتی امور میں مداخلت نہیں ہے۔