ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر والدہ مرحومہ محترمہ بے جی سے وابستہ کچھ یادوں اور باتوں کو دُہرا لیتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ان کے حوالے سے جو کوتاہیاں اور لغزشیں ہوتی رہیں کہ ان کا شاید کچھ مداوا ہو سکے۔ ماں جیسی عظیم ہستی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اولاد سے اتنی محبت، اتنی شفقت، اتنا پیار اور اولادکے لیے اتنی دُعائیںکہ ہر و قت اللہ کے حضور جھولی اور ہاتھ پھیلے رہیں۔ مائیں سب کی بہت پیاری، بہت قابلِ قدر اور بہت قابلِ تحسین ہوتی ہیں۔ میں اپنی والدہ مرحومہ و مغفورہ محترمہ بے جی کا ذکر کروں تو سچی بات ہے ان جیسی شفیق، مہربان، سادگی انکساری اور عاجزی کا پیکر، اپنی آل اولاد کے لیے جھولی پھیلا پھیلا کر دُعائیں مانگنے اور سب کا بھلا چاہنے والی اور ہستی کوئی نہیں ہو گی۔ والدہ مرحومہ محترمہ بے جی کا انتقال ہوئے اگرچہ 20 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن سچی بات ہے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے اب بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ بے جی مرحومہ و مغفورہ بہت سادہ طبیعت اور ایمان و یقین کی مالک ہستی تھیں۔ بلا شبہ انہیں بہت زیادہ خوفِ خدا رہتا تھا۔ کسی کا دل دکھاتے ہم نے انہیں نہیں دیکھا۔ اپنی اولاد سے بھی ڈرتی رہتی تھیں۔ بہت مشکل حالات اور غریبی میں انہوں نے ہماری پرورش کی۔ ساری زندگی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کیا۔ انتہائی دھان پان اور کمزور جسم کی مالک ہونے کے باوجود ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کی مریضہ تھیں۔ مارچ 2002 میں اُن کا انتقال ہوا تو بطور پرنسپل سیکنڈری سکول (سینئر پرنسپل) میری ترقی ہو چکی تھی۔ بلا شبہ اللہ کریم نے مجھے بہت نواز رکھا ہے۔ بس کمی ہے تو محبت کرنے اور دعائیں نچھاور کرنے والی پیاری ہستیوں کی بقول شاعر ’وہ صورتیں الٰہی اب کس ملک بستیاں ہیں‘۔ خیر قدرت کے متعین نظام الاوقات سے کسے مفر ہے جو اس دنیا میں آتا ہے اُسے یہاں سے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہی ہوتا ہے تاہم جب تک سانس میں سانس باقی ہوتی ہے یادیں ساتھ چلتی رہتی ہیں۔
بے جی مرحومہ و مغفورہ کے بارے میں اس بات کا ذکر بطور خاص کیا جا سکتا ہے کہ مارچ 2002 کے وسط میں ان پر فالج (برین ہیمرج) کا حملہ ہوا تو وہ ظہر کی نماز کے بعد قرآن پاک (سورۃ کہف) جو انہیں زبانی یاد تھی کی تلاوت کر رہی تھی۔ بے جی مرحومہ کو اپنی چھوٹی عمر میں قرآن پاک ناظرہ بھی پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ ہم ان کے بچے کچھ بڑے اور جوان ہوئے تو پھر انہوں نے نہ صرف ناظرہ قرآن پاک پڑھا بلکہ قرآن پاک کی کئی سورتیں جن میں سورۃ کہف بھی شامل تھی زبانی یاد کر لی۔ کئی برس تک ان کا معمول رہا کہ وہ گھر سے ایک آدھ فرلانگ فاصلے پر قاضی عبدالرب مرحوم جو پہلے ہماری مسجد کے امام ہوتے تھے کے گھر چلی جاتی اور ان کی اہلیہ مرحومہ جنہیں بی بی جی کہتے تھے سے گھنٹوں قرآن پاک ناظرہ پڑھنے میں مصروف رہتیں۔ قاضی عبدالرب مرحوم اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں بے جی کی بڑی عزت کرتے تھے۔ بے جی کا ان کے ساتھ اچھا وقت گزر جاتا۔ قاضی صاحب مسئلے مسائل بھی بیان کرتے رہتے تھے۔ بے جی ان کی بات ضرور سن لیتی لیکن بعد میں ہم سے بھی پوچھتی کہ یہ معاملہ یا مسئلہ کیسے ہے۔ میں اکثر بے جی سے کہہ دیا کرتا کہ آپ خواہ مخواہ مسئلے مسائل میں نہ پڑھا کریں بس اپنی نماز، روزے اور تلاوت کی طرف ہی دھیان دیا کریں۔ لیکن پھر بھی بے جی کم ہی ان باتوں کی پروا کرتی تھیں اور ان کی قاضی صاحب مرحوم اور ان کی اہلیہ محترمہ سے مختلف مسئلوں مسائل پر نوک جھونک چلتی رہتی تھیں۔
میں اپنے بچپن کو یاد کرتا ہوں تو کئی بھولے بسرے واقعات اور اُن سے جُڑی یادیں ذہن کے نہاں خانے میں فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ محترم والدین (لالہ جی اور بے جی مرحوم و مغفور) چٹے اَن پڑھ تھے لیکن انہیں تعلیم کی بڑی قدر تھی۔ لالہ جی کھیتی باڑی کرتے تھے۔ آمدنی کے انتہائی کم وسائل اور ذرائع تھے لیکن بہت ساری مشکلات ہونے کے باوجود انہوں نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ اُن کی اولاد زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو۔ محترمہ بے جی نے بھی روکھی سوکھی کھا کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر ہماری پرورش اور تعلیم دلانے میں کچھ کسر نہ چھوڑی۔ مجھے غالباً 1948-49میں گائوں کے پرائمری سکول میں جماعت اول ادنیٰ (کچی) میں داخل کرایا گیا۔ میرا سکول میں دل نہیں لگتا تھا اور میں سکول سے بھاگ جاتا تھا۔ سارا دن اِدھر اُدھر پھرتا رہتا تھا۔ والد صاحب مرحوم کو اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے میری خوب پٹائی کی۔ اب میں نے سکول سے بھاگنا تو چھوڑ دیا لیکن پڑھائی میں پھر بھی کچھ زیادہ دل نہیں لگتا تھا۔ اس دوران ایک واقعہ پیش آیا جو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ بے جی (والدہ مرحومہ) مجھے اپنے میکے کے چھوٹے سے گائوں (میرے ننھیال) لے گئیں اور وہاں سے اپنی چھوٹی بہن (میری خالہ) کے ہمراہ اپنے پیر و مرشد باوا سید عنایت حسین شاہ کے گائوں جلیاری معظم شاہ لے گئیں۔ یہ گائوں راولپنڈی کے جنوب مشرق میں تیس، بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر مندرہ کے قریب واقع ہے۔ شام کو ہم ذرا دیر سے پہنچے میں تھکا ہوا تھا جلد سو گیا۔ صبح جاگے تو بابا جی نے رات کا پکا ہوا مرغ کا سالن اور روٹی کھانے کو دی۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو بے جی نے باوا جی سے کہا کہ باوا جی یہ پڑھتا نہیں ہے اور سکول سے بھاگ جاتا ہے۔ باوا جی نے مجھے اپنے پاس بلایا، میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے کہا او ملکا (اے ملک) سکول سے کیوں بھاگتا ہے ساتھ ہی انہوں نے مجھے منہ کھولنے کو کہا اور کچھ پڑھتے ہوئے میرے منہ میں چھُو(دم) کیا۔ سچی بات ہے کہ گائوں واپس آیا تو سکول سے بھاگنا چھوڑ دیا اور پڑھائی میں بھی اچھا ہو گیا۔ یہ کیسے ہوا اس میں باوا جی کے دم کرنے اور چھُو کرنے کا اثر تھا یا وقت کے ساتھ خود تبدیلی آ گئی میں اس کی توجیح نہیں کر سکتا تاہم اتنا ضرور کہوں گا جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کریم کی مرضی اور منشا سے ہی ہوتا ہے۔
بے جی کے ایک ہی بھائی تھے ہمارے ماموں جن کا نام محمد نواز ڈھوک کاک تھا۔ وہ فوج میں بھرتی ہوئے اور دوسری جنگ عظیم میں سنگا پور ملایا میں جاپانی فوجوں کے خلاف لڑتے ہوئے لاپتا ہوئے اور مارے گئے۔ بے جی محترمہ، ان کی بہنیں میری خالائیں اور میرے نانا نانی ساری زندگی ان کی یاد میں آنسو بہاتے رہے۔ نانا اور نانی کی تو اپنے بیٹے کی یاد میں نظر ہی چلی گئی۔ بے جی بھی اکثر روتی اور سنگا پور باتو پہاڑ کا ذکر کرتیںجہاں ماموں کا فوجی دستہ متعین تھا۔ مجھے جولائی 1988ء میں اپنے دو محترم اور مہربان دوستوں کے ساتھ سنگا پور جانے کا موقع ملا تو میں نے سمندر کے کنارے باتو پہاڑ کو بھی دیکھا۔ واپسی پر بے جی کو بتایا۔ حال ہی میں میرے بڑے بیٹے سعد عثمان ملک نے بڑی کاوشوں، تحقیق اور جستجو کے بعد برطانیہ کے تحت دولتِ مشترکہ سے تعلق رکھنے والے کسی گروپ کو ڈھونڈ نکالا، جس میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران مختلف جنگی محازوں پر لڑنے والے ہندوستانی فوجیوں کے کوائف دئیے گئے ہیں۔ ان میں سنگاپور میں باتو کے محاذ پر لڑنے والے فوجیوں کے نام بھی ہیں۔ ان میں ہمارے ماموں نائیک محمد نواز ولد فیروز خان ڈھوک کاک کا نام بھی شامل ہے۔ سعد نے اپنی تحقیق کا حاصل اپنی پھوپھو، بُو جی (میری چھوٹی بہن) کو بتایا تو میں بھی موجود تھا۔
ہم دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور بے جی کی یاد آئی کہ وہ زندہ ہوتیں اور انہیں یہ سب کچھ پتہ چلتا تو وہ روتے روتے اپنے پیارے پوتے سعد ملک کی کتنی بلائیں لیتیں۔