گزشتہ دنوں فیڈریشن چیمبر آف پاکستان کے زیراہتمام ایک فری بجٹ سیمینار ہوا۔ اس کے مہمان خصوصی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تھے۔ اس بجٹ سیمینار میں آنے والے بجٹ 2024-25ء کے بارے میں بہت مثبت آرا ملیں اور بڑی بات کہ وزیر خزانہ نے بڑے صبر و تحمل مزاج سے سب کی آرا میں اور پھر حکومتی اور آئی ایم ایف کے آنے والے پروگرام سے آگاہ کیا اور بحیثیت وزیر خزانہ انہوں نے اپنی پالیسی اور ترجیحات بڑے واضح پہلوؤں کے ساتھ بیان کیں اور کہا کہ کچھ وقت دیں ہم آنے والے سالوں میں ملک کو پٹڑی پر چڑھا دیں گے۔
آج کل گھروں سے لے کر تمام میڈیا پر پاکستان کے معاشی مسائل، کمر توڑ مہنگائی، بلوں کے بڑھتے خطرناک رحجانات آئے دن روزمرہ کی اشیاء میں اضافہ اور آنے والے بجٹ کا خوف۔ جہاں حکومت اپنے مسائل در مسائل میں الجھی اور گھری نظر آ تی ہے وہاں سیاسی عدم استحکام میں ٹھہراؤ آتا نظر نہیں آ رہا اور ان دونوں کے بغیر ڈوبتی، لڑکھڑاتی ناؤ کنارے لگتی دکھائی نہیں دے رہی۔ آج جب ہم ملکی معاشی گراف پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بڑھتے اخراجات، شرح سود کے خطرات فگر اور نجکاری سے لے کر امپورٹ اور ایکسپورٹ کے ساتھ بڑھتے ٹیکسوں کے بوجھ نے ہر پاکستانی کا گھیراؤ کر رکھا ہے گو وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر دن رات پاکستان کی معاشی ڈوبتی کشتی کو کنارے کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں ہیں وہاں یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ پاک فوج اور حکومت پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتری کی طرف لانے میں جلد کامیاب ہو جائے گی۔ آج تو یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ کم از کم آنے والے چند ماہ میں ہم بہتری کے راستوں پر چڑھ جائیں گے، کیا ہونا چاہئے۔ آج میں اپنے کالم میں پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال پر چند اہم نکات پر بات کرنا چاہوں گا۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات…
معاشی حوالے سے ہمیں آج دو تین اہم ایشوز پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ ایک تو اب سیاسی بیانات سے نکل کر ملک میں انڈسٹری لگانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے لہٰذا میری پہلی گزارش یہ ہے کہ ملک بھر میں چھوٹے یونٹس سے پڑی بند انڈسٹری کو چلانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہئے۔ اس کے لئے چاہے حکومت مشکل فیصلے کرے اس پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔ دوسرا میرا نقطہ نگاہ یہ بھی ہے کہ حکومت جس طرح کسانوں کو بلاسود قرضے دیتی ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعتوں کو چلانے کے لئے چھوٹے تاجر اور بڑے بزنس مین کو قرضے جاری کرے اور جلد از جلد ایل سی کھولے تاکہ وہاں سے خام مال امپورٹ کرکے بند صنعتوں کو چلایا جائے۔ میرے نزدیک پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے اور معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور حل نہیں۔ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں سے ایک تو ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی۔ دوسرا کئی عشروں سے بند انڈسٹری کا جام پہیہ بھی چل پڑے گا۔ آج ہر کوئی قرضوں کی بات تو کر رہا ہے مگر کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو ان قرضوں سے وقتی طور پر تو آپ حالات پر قابو پا لیں گے مگر یہ مستقبل کا حل نہیں ہے۔ تابناک مستقبل کے لئے ایک ہی حل ہے کہ توانائی کے حل کے لئے بڑے ڈیم بنائے جائیں اور ڈیم بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس ملک کو چھوٹی سے بڑی انڈسٹری کو فی الفور چلایا جائے اور اس کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھاتے ہوئے آنے والی نسلوں کا مستقبل کو سنوارا جائے۔ آئی ایم ایف اور قرضے معاشی بحران کے خاتمے کا حل نہیں ہیں۔ اس سے تو ہم ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں لہٰذا میری گزارشات ہیں کہ معاشی اندھیروں سے عوام کو نکالنے کیلئے مرکزی، صوبائی حکومتیں طویل المدت معاشی منصوبہ بندی جات پر عمل کے لئے کام کریں تاکہ ہم ہمیشہ کے لئے خوشحالی کی پٹڑی پر چڑھ جائیں۔
یہاں میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ آج کیا ہوا اور آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ میرا درد پاکستان کی تباہ شدہ معیشت کے ساتھ ہے اور ہم گزشتہ ایک دہائی سے جن تباہیوں کو بھگت رہے ہیں۔ میرے نزدیک ان کی ذمہ دار بھی وہ سابقہ سیاسی حکومتیں ہیں جنہوں نے کبھی لانگ ٹرم معاشی پالیسیز نہیں بنائیں۔ میرے نزدیک صرف ایک واحد دور ایوب خان کا دور گزرا اور اس دور کی معاشی کامیابی کا کریڈٹ اس وقت کے وزیرخزانہ محمد شعیب مرحوم کو جاتا ہے جنہوں نے معاشی ترقی کی بہتری اور پاکستان کے دوسرے اداروں کو بہتر بنانے کے لئے پانچ سالہ منصوبہ جات پالیسی کے تحت انڈسٹری کو بنایا اور اسی دور کی انڈسٹری آج بھی ہماری ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز بھی طویل منصوبہ سازی ہی میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بنگلہ دیش کی مثال آج ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ بھی ہے کہ انہوں نے ملک کو چلانے کے لئے سب سے پہلے 15 سالہ معاشی منصوبہ بنایا اور پھر اس معاشی منصوبے کو آگے لے جانے کے لئے عوام سے لے کر تاجر تک اور تاجر سے لے کر بڑے صنعتکار تک کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنی انڈسٹری کو بہتر کیا اور آج وہ ہماری امپورٹ اور ایکسپورٹ میں ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ ان کی چھوٹی صنعت سے لے کر بڑی صنعت تک بین الاقوامی معیار کو چھو رہی ہے۔ پھر انہوں نے انہی منصوبوں کے تحت کئی ڈیم بنا ڈالے اور آج ہم سکھر بیراج جو کہ پاکستان کی آزادی سے پہلے بنتا ہے اور دوسرا منگلا اور تربیلا ڈیم جوکہ ایوب خان کے دور میں بنے اور بھاشا ڈیم کے رونے تو روتے ہیں لیکن جب کسی نئے ڈیم بنانے کا وقت آتا ہے تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔
یہاں میں بار بار کہتا آ رہا ہوں کہ آئی ایم ایف ہمارا مسئلہ نہیں اور حل جو زبردستی برے حالات کے سبب ہم پر ٹھونس دیا گیا۔ ہمارے ساتھ بہت کچھ ہونے کے باوجود ہم میاں شہبازشریف حکومت سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کئے ہوئے ہوں اور جس طرح انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے شروع کئے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم کوئی بہتر راستہ اختیار کر لیں گے۔ یہاں میری شہباز حکومت سے کچھ گزارشات ہیں کہ ہمیں سب سے پہلے کم از کم دس سالہ ایک ایسا معاشی منصوبہ بنانا ہوگا اور اس معاشی منصوبے کو جب تک قانونی شکل نہیں دی جائے گی تب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو پائے گا اور میرے نزدیک یہ دس سالہ معاشی منصوبہ ہی پاکستان کی انڈسٹری کو تباہ شدہ معاشی دلدل سے نکال سکتا ہے اور اگر آج بروقت پالیسی بنانے کے فیصلے نہ کئے تو پھر یاد رکھیں یہ ہم سب کے پاس آخری وقت ہے اور اگر شہباز حکومت ایک سال کے اندر 2 فیصد ڈی جی پی بڑھانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر معاشی ترقی میں جو رکاوٹیں ہیں وہ خودبخود دور ہوتی جائیں گی اور پھر اگلے سال اسی ریشو سے ڈی جی پی بڑھے گی تو پھر ہماری اکنامک گروتھ کا گراف بلندی کی طرف جاتا نظر آئے گا۔
میں جو بات کر رہا ہوں کہ پاکستان کے دس سالہ معاشی منصوبے کی اور یہ معاشی منصوبہ ایسا ہونا چاہئے کوئی بھی حکومت بنے یا ٹوٹے اس منصوبے کے تسلسل میں کبھی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ سوال ہے کہ ہم ناکام کیوں ہیں؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے کبھی طویل المدت منصوبہ جات پر کام نہیں کیا جبکہ پوری دنیا کا معاشی نظام طویل منصوبہ جات پر کھڑا نظر آتا ہے۔ یہاں بنگلہ دیش کی مثال میں نے اس لئے دی کہ وہ بدقسمتی سے ہمارا ہی حصہ تھا اور ہم سے علیحدگی کے بعد انہوں نے جس طرح اپنی انڈسٹری کو بنایا، سنوارا اور انہوں نے اس کی بہتری کے لئے جو اقدامات اٹھائے۔ کاش ہم بھی ایسا ہی کر پاتے۔ اب یہ بھی نہیں کہ ہم ایسا نہیں کر پائیں گے۔ میرے خیال میں سیاسی نظریات اور شخصیات سے ہٹ کے اب وقت آ گیا ہے کہ آج پاکستان کو اگر کوئی سسٹم بچا سکتا ہے تو وہ آپ کا معاشی ستون ہے اور اس وقت ضرورت اس معاشی ستون کو مضبوط کرنے کی ہے اور یہ مضبوط اسی وقت ہوگا جب اس کے اندر ہم طویل المدتی منصوبے اور ایسے پروگرامز لائیں جس سے ہماری معاشی راہیں کھلتی رہیں۔
اور آخری بات…!
میرے نزدیک اس طرح کے سیمینار کا آرگنائز کرنا حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر میں جہاں نزدیکیاں پیدا کرتا ہے وہاں ایک دوسرے کے مسائل سمجھ کر معاشی پالیسیز بنانے میں بڑی مدد ملے گی۔ دیکھا جائے تو فیڈریشن چیمبر آف کامرس کا یہ بڑا قدم ہے۔ حکومت اور تاجروں کے ملانے کی ایک کامیاب اور خوبصورت کاوش جس کا تمام تر سہرا ایف پی سی سی آئی کو جاتا ہے۔ ویلڈن …ایف پی سی سی آئی۔