چاند پر مت تُھوکیں

ہمارے شعبہ صحت سے وابستہ کچھ کاروباری لوگ ملک کے نامور آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز سے اکثر خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں وہ اْن کی خرابیوں کی ہنڈیا بلکہ پوری ”دیگ“ بیچ چوراہے نہ پھوڑ دیں ،چنانچہ وہ تاک میں رہتے ہیں ان کے خلاف کوئی جھوٹا سچا معاملہ ان کے نوٹس میں آئے اور وہ اسے اپنے کسی مذموم مقصد کے لئے استعمال کر لیں جس کے لئے انہیں صحافت کی کسی نہ کسی کالی بھیڑ کا سہارا بھی لینا پڑ جاتا ہے، اسامہ بن لادن کے ساتھ ڈاکٹر عامر عزیز نے اپنا تعلق کبھی نہیں چھپایا بلکہ ہمیشہ اسے اپنا ایک اعزاز سمجھا ہے، اس کی سزا بھی انہیں بھگتنا پڑی، جنرل مشرف کے زمانے میں اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلق کی وجہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا، انہیں کئی ماہ تک شامل تفتیش رکھا گیا پھر رہا کر دیا گیا، دوران حراست ان سے کیا کیا پوچھا جاتا رہا؟ انہیں اور ان کی فیملی کو اس دوران کن اذیتوں سے گزرنا پڑا یہ سب ریکارڈ پر ہے، تب بھی انہوں نے یہی فرمایا تھا وہ ایک ڈاکٹر ہیں اور اپنے مریضوں کا علاج رنگ و نسل کی تفریق کئے بغیر کرتے ہیں، آج بھی ان کی زندگی اسی عظیم فلسفے کے تحت گزر رہی ہے، اسامہ بن لادن نے اپنے علاج کی غرض سے انہیں بلایا تھا، اس کے دیگر معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، یہ معاملہ اب ماضی کا قصہ ہے، مگر ان کی عزت و شہرت سے خوفزدہ لوگ اب بھی کوئی نہ کوئی سازش شرارت ان کے بارے میں کرتے رہتے ہیں، وہ ایسے روایتی ڈاکٹر نہیں جو اپنے مریضوں کو ”گاہگ“ اور کلینک کو”دکان“ بلکہ ”فیکٹری“ سمجھتے ہیں ،وہ اپنے کام کے ساتھ ہمیشہ ماں جیسا انصاف کرتے ہیں، جیسے کوئی ماں اپنے مالدار بیٹے سے لے کر اپنے غریب بیٹے کو دیتی ہے اسی طرح وہ اپنے دولت مند مریضوں سے اْن کے آپریشن و علاج سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس کا بہت سا حصہ اپنے مستحق مریضوں پر خرچ کر دیتے ہیں، دوسری بڑی خوبی ان میں یہ ہے وہ اپنا علم تقسیم کرنے کے معاملے میں کبھی ایسی بخیلی نہیں کرتے جو ہمارے بے شمار ڈاکٹروں کی عمومی فطرت ہوتی ہے، ہمارے اکثر ڈاکٹرز نہیں چاہتے ان کا کوئی شاگرد ان سے آگے نکل جائے، عامر عزیز اس معاملے میں اتنی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ فرماتے ہیں ان کے پاس کوئی مریض آئے بعض اوقات وہ اسے یہ کہہ کے اپنے کسی شاگرد کے پاس بھیج دیتے ہیں کہ وہ اس مرض کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتا ہے ،یہ حقیقت نہیں ہوتی اس کے پیچھے مقصد صرف اپنے جونئیرز یا شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے، اب تک کئی ”عامر عزیز“ انہوں نے بنا دئیے ہیں، وہ اکثر یہ فرماتے ہیں ”ہم اگر اللہ کا دیا ہوا علم آگے تقسیم کئے بغیر دنیا سے چلے گئے قبر میں ہمیں اس کا حساب دینا پڑے گا“، کون ایسے سوچتا ہے ؟ ہماری ڈاکٹر برادری کے ہاں اس طرح کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ،پچھلے دنوں میرے شاگرد عزیز چھوٹے بھائی فرخ شہباز وڑائچ نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو لاکھوں لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں ،اس انٹرویو میں ہر طرح کے سوالات اْن سے پوچھے گئے، انہوں نے تمام سوالوں کے جواب پوری دلیری و سچائی سے دئیے ،یہ دلیری اور سچائی پاکستانی معاشرے سے بڑی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ،اس انٹرویو میں اسامہ بن لادن کے ساتھ ان کے تعلق کے حوالے سے بھی بہت کچھ پوچھا گیا ،انہوں نے وہی حقائق دہرائے جو پہلے بھی کئی بار وہ بتا چکے ہیں، اس کے باوجود گزشتہ روز ہمارے ایک معروف صحافی اور وی لاگر بھائی نے بغیر مکمل تحقیق کے اسامہ بن لادن کے حوالے سے کئے جانے والے اپنے ایک وی لاگ میں یہ فرما دیا ”اسامہ بن لادن کو مروانے میں جن لوگوں نے معاونت کی اور مال بنایا ان میں آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عامر عزیز بھی شامل تھے“، ڈاکٹر عامر عزیز کے بدترین دشمن بھی یہ اعتراف کرتے ہیں مال بنانا کبھی ان کا مشن نہیں رہا ،اللہ نے فطری طور پر ہر قسم کی لالچ سے انہیں پاک رکھا ہوا ہے، اس معاملے کی ساری حقیقت ایک امریکی صحافی سیمونر ہارش اپنی کتاب ”دی کلنگ آف اسامہ بن لادن“ میں لکھ چکے ہیں، وہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر کئی بہت عرصے تک تحقیق کرتے رہے، انہوں نے لکھا ”ایک میجر ڈاکٹر عامر عزیز تھا جس نے اس ہلاکت میں سہولت کاری کی اور مال بنایا“، دنیا میں ایک ہی نام کے کئی کئی لوگ ہوتے ہیں، جیسے گوجرانوالہ میں ایک مسلم لیگی راہنما اور سابق ایم پی اے توقیق بٹ ہیں، اتفاق دیکھئے ان کے والد کا نام بھی میرے والد کے نام کی طرح رفیق بٹ ہے، اب ان کے کسی جرم کو بغیر تحقیق کے میرے کھاتے میں ڈالنا یا میرے کسی جرم کو بغیر تحقیق و تصدیق کے ان کے کھاتے میں ڈال دینا سرا سر زیادتی ہی تصور ہوگی، یہ کام کم از کم کسی ایسے صحافی یا وی لاگر کو نہیں کرنا چاہئے جسے لاکھوں لوگ دیکھتے اور سنتے ہوں اور اس کی ایک ساکھ ہو، یہ معاملہ میرے نوٹس میں آیا تو میں نے اس محترم صحافی اور وی لاگر کے ادارے کی ایک اہم شخصیت سے رابطہ کیا انہیں ساری حقیقت شواہد کے ساتھ بتائی، کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ اس صحافی نے اپنے وی لاگ سے وہ حصہ ختم کر دیا ہے جس میں ڈاکٹر عامر عزیز پر الزام لگایا گیا تھا‘‘، مگر تب تک سینکڑوں لوگ یہ وی لاگ دیکھ اور سن چکے تھے اور اندرون و بیرون ملک سے کئی لوگ ڈاکٹر عامر عزیز صاحب سے رابطہ کر رہے تھے کہ وہ اس جھوٹ کا نوٹس لیں، اب وہ ایک لیگل پروسس شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ظاہر ہے ان کا حق ہے، ہماری گزارش بس اتنی ہے کسی کا نام لے کر اس کی پگڑی اچھالنا اگر بہت ضروری ہوپہلے اس کی پوری چھان بین پوری تحقیق کر لی جائے تاکہ اپنی تھوک اپنے ہی منہ پر نہ آن گرے، محترم وی لاگر صاحب فرماتے ہیں انہوں نے میجر ڈاکٹر عامر عزیز کا ریکارڈ ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی اس کی کوئی تصویر یا تفصیل انہیں نہیں مل سکی‘‘، ممکن ہے وہ سچ کہہ رہے ہوں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میجر ڈاکٹر عامر عزیز کا کوئی ریکارڈ انہیں نہیں ملا تو وہ اس الزام کو آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عامر عزیز کے کھاتے میں ڈال دیتے ،میں خود ان صحافیوں میں تھا جو بعض اوقات بغیر تحقیق یا تصدیق کے کوئی خبر یا واقعہ اپنے کالم میں لکھ دیتے تھے، اب میں نے اپنے اس’’مرض‘‘ پر چونکہ کافی حد تک قابو پا لیا ہے سو میں اب دوسروں سے بھی یہ گزارش کرنے کی پوزیشن میں ہوں وہ بھی اپنے اس مرض پر قابو پا لیں ،معاشرے میں انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ڈاکٹر عامر عزیز کا جو مقام ہے کون الو کا پٹھا اس بات پر یقین کرے گا کہ ایک ایسے انسان کی شہادت کی سہولت کاری کے انہوں نے پیسے لئے جسے وہ صرف اپنا نہیں عالم اسلام کا ایک ہیرو سمجھتے تھے، اپنے اس وی لاگر بھائی سے میری گزارش ہے اپنی خبر یا اطلاع کی مزید تحقیق کریں، اگر ان کی معلومات واقعی ناقص ہوں انہیں اس پر ڈاکٹر عامر عزیز سے کْھلے دل سے معذرت کر لینی چائیے، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے، غلطی پر اڑے رہنے والا بڑا انسان نہیں ہوتا، اس کا اعتراف کر کے معذرت کرنے والا بڑا انسان ہوتا ہے ،المیہ یہ ہے ہمارے ہاں ”انسان“ ہی نہیں رہے ”بڑے انسان“ کہاں سے ڈھونڈ کے ہم لائیں ؟