ملکی حالات اور گیدڑ سنگھی

عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے صرف بالوں کا ایک گچھا سمجھتے ہیں۔ کچھ جوگی اس کو ایک ایسے گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، جس کو تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جس کے پاس ہو اس کی قسمت بدل جائے گی۔ اس کو ہر طرح سے مالی مدد حاصل ہو گی۔ زیورات یا نقدی کے سیف میں گیدڑ سنگھی رکھی جائے تو وہ مزید بڑھیں گے۔ دولت اور کاروبار میں ترقی ہو گی، گمشدہ مال مل جایا کرے گا۔ غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہو گی، دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہو گی۔ لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہو گی۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ گیدڑ سنگھی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور اسے ہندو تانتروں نے دریافت یا ایجاد کیا لیکن ہمیں ہندو مذہب یا تاریخ کی کسی کتاب میں گیدڑ سنگھی کا ذکر نہیں ملتا۔ چونکہ اسے سیندور میں رکھا جاتا ہے اس لیے اس کا تعلق ہندؤوں سے جوڑ دیا گیا۔

درحقیقت گیدڑ سنگھی کا ذکر ہمیں قدیم مصر میں ملتا ہے۔ قدیم مصر میں گیدڑ کو ایک انتہائی متبرک جانور سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ایک دیوتا کا نام انوبس Anubis تھا جس کا سر گیدڑ جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا۔ آپ نے اکثر قدیم مصر کے اہرام اور دوسرے قدیم عمارات کی دیواروں پر منقش شدہ تحاریر اور شبیہات میں اس دیوتا کی تصویر دیکھی ہو گی۔ اسی طرح قدیم مصریوں میں بلی کو بھی انتہائی مقدس جانور خیال کیا جاتا تھا۔ مصری لوگ گیدڑ سنگھی نکال کر حنوط کر لیتے تھے اور پھر ایک خاص مرتبان میں رکھ کر اپنے خزانے میں رکھتے تھے۔ اسی طرح یہ رسم چلتی ہوئی ہندوستان اور تمام دنیا تک بھی پہنچی۔ زمانہ قدیم سے لوگ گیدڑ سنگھیاں حنوط کر لیتے تھے۔ راجہ مہاراجہ اور بادشاہ اسے اپنے خزانوں کے درمیان رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب گیدڑ سو سال کا ہو جاتا ہے تو اس کے سر پر سینگ اُگ آتا ہے یا یہ کہ یہ سینگ صرف گیدڑوں کے سردار گیدڑ کے سر میں پایا جاتا ہے۔ لوگ اس چیز کو بہت منتیں کر کے جوگیوں اور ملنگوں سے خریدتے ہیں اور خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ زندہ حالت میں ہو اور پھر بڑے پیار اور عزت سے اسے سیندور اور خوشبووں والی ایک چھوٹی سی ڈبی میں رکھتے ہیں۔ سیندور وہی سرخ رنگ کا پوڈر نما سفوف ہے جیسے ہندو پتی اپنی پتنی کی مانگ میں لگاتا ہے۔ سیندور ایک کیمیکل ہوتا ہے جو اسے کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھتا ہے۔

لوگ اس گیدڑ سنگھی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پاک صاف ہو کر اس کے نزدیک جاتے اور اس کو ہاتھ میں پکڑتے ہیں کیونکہ جوگی صاحب نے انہیں بتایا ہوتا ہے کہ اگر ناپاک حالت میں اس کے قریب جاؤ گے تو یہ مر جائے گی یا اس وجہ سے آپ کا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ اصل میں گیدڑ سنگھی واقعی گیدڑ کے سر (کھوپڑی) سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ بالکل جلد کے نیچے موجود ہوتی ہے اور اسے اس کے سر سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے اس چیز کے گرد بال بھی موجود ہوتے ہیں۔ گیدڑ سنگھی کینسر زدہ (tumor) سیلز ہیں جو کہ گیدڑوں کے سر میں ایک بڑے دانے کی طرح ابھر آتا ہے جس میں تھوڑی سی سختی بھی آ جاتی ہے۔

گیدڑ کے سر سے الگ ہونے کے باوجود اس کے بڑھنے کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ کینسر والے سیلز اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑسنگھی بڑھ رہی ہے۔ اس کے بڑھنے کی دوسری وجہ آکسیجن کی غیر موجودگی میں بیکٹیریا کی گروتھ کا جاری رہنا یا ان کی تعداد کا بڑھتے رہنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب کینسر زدہ سیلز کو سندور میں حنوط کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چھیہتر سال سے ملک کا جو حال ہو گیا ہے۔ اداروں کی جو حالت ہو گئی ہے؟ اخلاقی قدریں جس قدر زوال پذیر ہو گئی ہیں؟ سماجی اقدار کا جس قدر جنازہ نکل چکا ہے؟ انسانیت جس قدر دم توڑ چکی ہے؟ بے راہ روی، ناانصافی کا ناسور جس قدر گہرا چکا ہے، ان تمام حالات کو بہتر کرنا کسی حکومت کے بس کا روگ نہیں رہا بس اس کیلئے کسی گیدڑ سنگھی کی ضرورت ہے۔