بہت سے غور طلب ”کیوں“!

انسانی فطرت ہے ذہن ایک مرتبہ گنجلک سوچ کے دائروں میں جکڑ جائے تو خلاصی کاردارد ہوتی ہے روشنی تاریکی اور تاریکی پر روشنی کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ میرے نزدیک اپنے اقوال واعمال کے حوالے سے عمران خان کے حامیوں کا امیج سامنے آتا ہے وہ دراصل اس حقیقت کا عکس ہے جو سوشل میڈیا کے بے بنیاد الزام تراش دشنام طرازی اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعہ اذہان پر مرقسم کردی گئی ہے۔ جہاں تک بڑے لیڈروں کا تعلق ہے وہ ان حامیوں بشمول کارکنوں کی اس ذہنی کیفیت سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن حامی اورکارکن اسی منجمد سوچ کے زیراثر اس اہم پہلو پر غورکرنے سے ہی معذور ہیں کہ وہ کہ جو عمران دشمنی میں اس حدتک چلا گیا کہ باقاعدہ سازش کرکے اس کی حکومت کا قبل ازمدت خاتمہ کردیا اس امریکہ کی حکومت، پارلیمنٹ (سینٹ وکانگرس) کے ارکان، وزیر خارجہ حکومتی ترجمان اس’’ دشمن ‘‘کی حمایت میں کسی بہت عزیز دوست سے بڑھ کر سرگرم کیوں ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر اسلام آباد کے ساتھ ساتھ کبھی لاہور اور کبھی کراچی میں لابنگ کے انداز میں چکر کیوں لگا رہا ہے ساری دنیا کو چھوڑ کر صرف امریکہ ہی کیوں عمران کی زندگی اور صحت کے حوالے سے مسلسل تشویس میں مبتلا کیوں ہے۔ امریکی سفیر وہ واحد غیر ملکی سفیر کیوں ہے جو پی ٹی آئی کے لیڈروں کے گھروں میں جاکر انہیں امریکی سفارت خانے میں بلاکر مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ کیوں جاری رکھے ہوئے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھوملر نے اس سوال کے جواب میں کہا بانی پی ٹی آئی کی حفاظت امریکہ کی اولین ترجیح ہے نے کہا ’’ہم پاکستان یا دنیا میں کہیں بھی ہرقیدی کی حفاظت دیکھنا چاہتے ہیں ہر شخص اور ہرقیدی بنیادی انسانی حقوق اورقانون کے تحت تحفظ کا حق دار ہے‘‘۔ میرا خیال ہے امریکی ترجمان نے اپنی پوری زندگی میں بڑا جھوٹ نہیں بولا ہوگا۔ عمران ایک پاکستانی قیدی ہے اور پاکستان میں ہی قید ہے۔ اسے جیل میں جو مراعات و سہولتیں حاصل ہیں آج تک کسی سیاستدان قیدی کو نہیں ملیں، ان میں عمران کی طرح سابق وزیراعظم کی شناخت رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف بھی شامل ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں قیدیوں کے تحفظ کے علمبردار امریکہ میں ایک پاکستانی قیدی ہے دوران قید اس کے ساتھ بہیمانہ ’’تشدد‘‘ غیر انسانی سلوک کو خودامریکی میڈیا نے بے نقاب کیا حتیٰ کہ اسے ایک سے زائدبار جنسی تشدد کا نشانہ بناکر شرمناک حرکت کی گئی۔ دنیا بھر میں قیدیوں کی فکر میں دبلے ہونے والے میتھوملر جواب دیں کیا ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے تحت تحفظ کا حق حاصل نہیں ہے، کیا اس کا حق دار صرف عمران خان ہی ہے۔

عمران کے حامی اور کارکن اگر کبھی ذہنی جکڑ بندی سے باہر آسکیں تو یہ جائزہ بھی لیں۔ عمران کے پورے عرصہ اقتدار میں وہ کون ساایک ایسا کام ہوا ہے جس سے امریکی مفاد کو زد پڑی ہو۔ پاکستان کا سی پیک منصوبہ جو امریکہ کی آنکھ میں کانٹے سے زیادہ چھبن کا باعث ہے اسے ایک انچ آگے بڑھایا گیا یا مکمل طور پر منجمد کرکے امریکی قلوب کو مسرت آمیز آسودگی عطا کی گئی تھی۔ کیا امریکہ نوازشریف کے اس لیے خلاف نہیں ہے کہ نوازشریف کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کا منطقی نتیجہ سی پیک کی بحالی کا عمل تیزرفتار پکڑے گا اور چین، روس، ترکی کے تعاون، سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے جال کے ذریعہ امریکی پھندے میں پھنسا، پاکستان آزاد ہو گیا تو جنوبی ایشیاء وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے بڑے اور انتہائی سٹرٹیجک خطے سے امریکہ کا بالادست اثرورسوخ قصہ ماضی بن کر رہ جائے گا اس لئے امریکہ کو ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا نعرہ لگاکر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے خدمتگار ہی راس ہیں،ورنہ پاکستانی عوام اور پورے خطے کو ’’امریکی غلامی‘‘ سے نجات دلانے کا ایجنڈا رکھنے والا عمران تو ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ امریکیوں کے ہاتھوں ’’عبرت کا نشان‘‘ بننے کا سزادار ہوتا۔ لیکن وہ توپی ٹی آئی سے بڑھ کر عمران کیلئے بے کل ہوئے جارہے ہیں وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ سے دوٹوک انداز میں امریکیوں پر واضح کیا ہے کہ ’’عمران سمیت ‘‘قیدیوں کا مسئلہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ہمیں کسی کی ہدایت کی ضرورت نہیں پاکستان کی عدلیہ کا آزادانہ اور شفاف نظام ہے عدلیہ قانون کے مطابق فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ انصاف کی فراہمی پاکستان کی عدلیہ کا ایک بنیادی ستون ہے‘‘۔

تاہم پورا سال گزرنے پر بھی 9مئی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ ہونے سے ’’کیوں‘‘ کا سوال تو اٹھ رہا ہے امریکہ میں ٹرمپ حامیوں سے کپیٹل ہل پر حملہ کیا فوٹیج کے ذریعہ جس جس کی نشاندہی چندہفتوں میں سزایاب ہو گئے۔ لیکن ایسے ہی تمام ثبوت وشواہد پیش کردیئے جانے کے باوجود فیصلے کی گھڑی نہیں آرہی اس پر اذہان میں ’’کیوں‘‘ کا بہت بڑا سوال قدرتی بات ہے۔ دوسرے کچھ ججوں کے ریمارکس سے کچھ بہتر متاثر پیدا نہیں ہورہا ،اس لیے عدلیہ کی ساکھ کے لیے ججوں کو ایسے ریمارکس کے حوالے سے محتاط رہنا چاہئے جن پر وکیل صفائی کے مؤقف کا گمان پیدا ہوتا ہو، عمران اور پی ٹی آئی کے وکیلوں کی جانب سے تاخیرہ ہتھکنڈوں کے طورپر تاریخیں مانگنے اور لمبی لمبی تاریخیں ملنا بھی کیوں کا سوال پیدا کرتا ہے۔ اگر جج یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ، استغاثہ یا فوج کی جانب سے پیش کردہ ثبوت وشواہد حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے تو پھر عمران اور تمام ملزموں کو بری کردینا چاہئے۔ اب تو نگران حکومت کی جانب سے تحقیقات کرنے والی کابینہ کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق فراہم کردہ شواہد کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوںکی منصوبہ بندی میں عمران نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ایسے ہی شواہد عدالتوں میں پیش کئے جاچکے ہیں سابقہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بقول 9مئی کے ثبوتوں میں پی ٹی آئی کے لوگوں کی اپنی آڈیوز ویڈیو موجود ہیں ان کے خلاف 9مئی کے اتنے ثبوت ہیں کہ کوئی ابہام نہیں ہے۔ ٹرائل ہوگا تو کسی کوسزا ملے گی۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگ زیب کے ریمارکس سے تو ابہام کی نشاندہی ہوتی ہے اگرچہ 9مئی نہیں سائیفر کیس میں جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج کل ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ(پراسکیوٹر) کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے۔ جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے ایف آئی اے پراسکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی کودرست مان لیتے ہیں۔ پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت چار لوگوں کی لیکٹڈ آڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن میں سائیفر سے کھلنے کا ذکر ہے۔ جسٹس گل حسن اورنگ زیب سے سوال اٹھایا کیا آپ انٹرنیٹ پر آنے والی ہرچیز کو درست مان لیتے ہیں میں تو ایسا نہیں کرتا، انٹرنیٹ پر جھوٹ ہے جب تک کسی چیز کے درست ہونے کی تصدیق نہ کرلی جائے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے 9مئی کے واقعات کے ثبوت وشواہد بھی تو آڈیوزویڈیوز کی صورت موجود ہیں اور اگر عدلیہ کے نزدیک یہ جعلی ہیں تو پورے سال میں ان کی تصدیق کے احکامات کیوں جاری نہیں ہوئے۔ لگتا ہے دوبارہ سنیٹر نہ بنائے جانے پر (ن) لیگ سے ناراض مشاہد حسین نے مشورہ دیا ہے امریکی کال آنے سے پہلے بانی پی ٹی آئی کو رہا کردیا جائے، یعنی ٹرمپ صدر بن گیا تو پہلی کال یہی آئے گی۔ اس لئے عمران اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کی ٹرمپ کے الیکشن پر نظریں لگنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر دوسروں کو اس کا انتظار کیوں ہے، یہ کیوں بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔