اجالے سے اندھیرے تک

ہوا حق میں ہو تو پتنگ اوپر ہی اوپر چڑھتی جاتی ہے، ہنگامی حالت میں اتارنا پڑ جائے یا کٹ جائے تو پھر ڈور الجھ جاتی ہے، لاکھ کوششیں کریں سلجھ نہیں سکتی اسے کہیں سے کاٹ کر ہی جان چھڑانا پڑتی ہے۔ سیاسی افق پر کئی چڑھی پتنگیں تھیں، کچھ کٹ گئی ہیں کچھ اتار لی گئی ہیں، ڈور سب کی الجھ گئی ہے۔ 9 مئی سے اگلا 9 مئی آ گیا ڈور الجھی پڑی ہے، متعدد ذمہ دار شخصیات اور ادارے شاکی نظر آتے ہیں کہ اسے سلجھایا نہیں گیا۔ گزشتہ برس کی طرح ایک مرتبہ پھر نئے اہتمام کے ساتھ کیمروں سے محفوظ کئے مناظر ٹی وی سکرینوں پر چلائے گئے ہیں کہ دکھ پھر تازہ ہوئے ہیں، زخموں پر مرہم رکھنے کے اعلانات زورشور سے ہوئے تھے، لگتا ہے زخم زیادہ تھے خراب ہو گئے تھے یا مرہم کم پڑ گئی، ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کو سزا کیوں نہیں ملی اب تو اس مطالبے میں وہ بھی شریک ہو چکے ہیں جنہوں نے سزا دینا تھی، کچھ شخصیات کو سزا ملنا تھی لیکن انہیں جزا ملی ہے وہ نہایت خاموشی سے ضمانت کی سہولت حاصل کر کے اب کسی اور محاذ پر سرگرم ہیں، کچھ ایسے تھے جو گرفتار ہونے سے قبل ہی بیرون ملک فرار ہو گئے انہیں ضمانت کی ضرورت نہ تھی ایک طبقہ ایسا تھا جو غیرملکی شہریت کے زور پر دندناتا پھرتا تھا ملک اوراس کے اداروں کے خلاف زہر اگلتا تھا ان پر ہاتھ ڈالنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی اب وہ بیرون ملک مقیم ہیں اور ملک دشمنوں کے آلہ کار بنے ہیں، کبھی خبر آتی ہے فلاں کو لندن پولیس نے طلب کیا اور گھنٹوں تفتیش کی، پھر وہ شخص لندن میں مٹر گشت کرتا نظر آتا ہے، اس تفتیش کے بعد اس کا رویہ مزید جارحانہ نظر آتا ہے ایک نہیں ایسے درجنوں کردار ہیں جو حددرجہ بدکردار ہیں۔ جن کے بارے میں ہر شخص کو یقین تھا کہ وہ 9 مئی میں ملوث ہے، ناقابل تردید ثبوت بھی موجود تھے انہیں سب سے پہلے مکھن میں بال کی طرح نکال باہر کیا گیا ہے، اب وہ وبال جان بنے ہیں، ہم اس حوالے سے اتنے بے بس ہیں کہ جن ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے ان سے رسماً احتجاج بھی نہیں کرتے اس پراپیگنڈے کا جواب بھی نہیں دیتے نتیجہ یہ ہے کہ ان کے موقف کو سچ جانا جاتا ہے۔

گندم کی ڈور بھی مزید الجھ گئی ہے، پہلے بتایا گیا کہ گندم پر نم ہے ذرادھوپ سینک لے گی تو اٹھا لی جائے گی، دھوپ کا تڑکا لگ چکا تو بتایا گیا کہ باردانہ تقسیم کیا جا رہا ہے چند روز تک خریداری شروع کر دی جائے گی، چند روز گزرے تو سرکار کا صاف انکار سامنے آ گیا، اب بتایا گیا ہے کہ جناب انوار الحق کاکڑ صاحب کی گندم کے بعد ایک اور بھاری بھرکم لاٹ خریدا جا چکا ہے، گندمی تیروں کا رخ گندمی رنگت والے سابق نگران وزیراعظم کی طرف ہوا تو انہوں نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ ان کی درآمد کردہ گندم تو کب کی کھائی پکائی جا چکی ہے اس حوالے سے سٹوریج کا کوئی مسئلہ نہیں، انہوں نے اسی ٹاک شو میں بتایا کہ ان کے بعد 9 لاکھ ٹن گندم بھی امپورٹ ہوئی ذرا ان سے پوچھیں اگر غلطی نگران حکومت کی تھی تو انہوں نے یہ غلطی کیوں دہرائی۔

سولہ روپے کی روٹی اور بیس روپے کا نان پروگرام ناکام ہو گیا ہے، کوشش تو بہت اچھی تھی مگر مافیا نے ناکام بنا دی، اب گندم کی فراوانی ہے مارکیٹ ریٹ گر چکا ہے سستی گندم حکومت خریدے اور روٹی سولہ کے بجائے بارہ روپے میں فروخت کرے یوں کسان نقصان سے کسی نہ کسی حد تک بچ سکتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کسان اپنی پیداوار کا نصف سے زائد اونے پونے فروخت کر چکے ہیں، یہ گندم پرائیویٹ سیکٹر نے خریدی ہے، عین ممکن ہے وہ اسے برآمد کرنے کی پالیسی منظور کرا لے اور اپنے اثرورسوخ سے سبسڈی بھی حاصل کر لے یوں اس کی پانچوں گھی میں اورسر کڑاہی میں ہو گا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ گندم فی الحال سٹورز میں رکھی جائے گی پھر حالات سازگار دیکھ کر پرائیویٹ سیکٹر اسے ہمسایہ ممالک میں سمگل کر دے گا اور کسان کی دعائیں حاصل کرے گا۔
ہمارے یہاں بمپر کراپ روز روز تو ہوتی نہیں، کبھی پانی نہیں تو کبھی بیج صحت مند نہیں، دونوں موجود ہوں تو پھر کھاد نہیں، سب کچھ موجود ہو تو بمپر کراپ کا یہی حشر ہوتا ہے جو آج گندم کا دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس سے قبل ہم نے یہی کہانی چینی کے حوالے سے دیکھی، پہلے مہنگی چینی درآمد ہوتی ہے پھر اپنی چینی پر سبسڈی دے کر اسے برآمد کیا جاتا ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان اور سبسڈی عام آدمی کے ٹیکس کے پیسوں سے دے کر ”ستارہ امتیاز“ بھی دیا جاتا ہے، ان کی خدمات کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے برآمدی ہدف میں ریکارڈتوڑ کامیابی حاصل کی اور کثیر زرمبادلہ لانے کا کارنامہ انجام دیا۔ ایک صاحب عرصہ تیس برس سے فرانس میں گارمنٹس کے کاروبار سے منسلک رہے وہ سال میں ایک مرتبہ پاکستان کی فلمی اداکاراؤں سے ملنے آتے تھے، وہ بھی ستارہ امتیاز کے حقدار قرار پائے ان کے علاوہ قریباً پچاس ڈاکٹر اور طبی عملے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی قومی اعزاز سے نوازے گئے ان کی خدمات کا آج تک علم نہیں ہوسکا۔

ہم گندم مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مزید نواز سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہو گی تو ملک اپنے ”اقتصادی انجام“ کو جلد پہنچے گا، خیال تھا ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہے گی، ایس پی، پولیس بانو کو گلے لگا کر اور پولیس کی یونیفارم پہن کر اظہار یکجہتی ہو چکا تھا، پولیس کے حوصلے بلند تھے انہیں ابھی اور بلندی پر جانا تھا لیکن وکلا برادری نے سول عدالتوں کو نئی جگہ منتقل کرنے کے خلاف میدان میں آنا ضروری سمجھا، نئی عمارت ہر لحاظ سے بہترین اور ضروریات کے عین مطابق ہے، سول عدالتیں ایک مقام پر ہوں تو عام شہری کے لئے سہولت کے ساتھ ساتھ وکلا کے لئے بھی سہولت ہے، وہ کم وقت میں سہولت کے ساتھ مختلف عدالتوں میں اپنے مقدمات کی پیروی کر سکتے ہیں، پرانے 9 مئی کا خلا پُر کرنے کی کوشش میں وکلا اور پولیس مقابل نظر آئے، پولیس افسران کے مطابق دو درجن کے قریب پولیس اہلکار اور افسر زخمی ہوئے ہیں،وکلا نمائندوں کا کہنا ہے یہ سب پولیس کے ڈرامے ہیں، پولیس کے ڈرامے ہمارے ملک میں بہت مقبول رہے ہیں اس کا سہرا پی ٹی وی کے سر ہے، برسوں پہلے جب پولیس ڈرامہ ”اندھیرا اجالا“ ٹیلی کاسٹ ہوتا تھا تو بازار سنسان نظر آتے۔ شادی والے گھرانے سے پوچھتے ہیں کہ بارات کب پہنچے گی تو جواب ملتا ”اندھیرا اجالا“ دیکھ کر روانہ ہوں گے، قوم گزشتہ ستتر برس سے مختلف اندھیروں اجالوں میں بھٹک رہی ہے، جسے اجالا سمجھتے ہیں وہ گھپ اندھیرا بن جاتا ہے، پیاس کی شدت میں نظر آنے والے پانی کی طرف لپکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے سراب تھا، اب آئندہ برس گندم کا بحران ہو گا ہر پتنگ کی ڈور آخر میں الجھ جاتی ہے۔