کسانوں کو بُوٹ جتنی عزت دو

گندم کی خریداری کا بحران تاحال جاری ہے، ممکن ہے عارضی طور پر اس بحران کو حل کرنے کی کوئی سکیم بنائی جا رہی ہو، مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے، یہاں ہر دوسرے چوتھے برس اس طرح کے بحران کبھی گندم کبھی چینی کے حوالے سے شاید اس لئے پیدا ہو جاتے ہیں ان دونوں شعبوں پر مافیاز کا راج ہے، سب سے بڑا ”مافیا“ ان شعبوں کے وہ نکے بڑے افسران ہیں جن کا اول و آخر ایمان مال بنانا ہے، سیاستدانوں یا سیاسی حکمرانوں کے ہاں تو چلیں پھر”کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے“ جیسا ”عقیدہ“ موجود ہے، یہ جو ہمارے اصل حکمران یعنی یہ جو ہمارے افسران ہیں ان کا ”عقیدہ“ صرف کھانا ہی کھانا ہے، یہ اگر ”لگاتے“ بھی ہیں صرف خود پر لگاتے ہیں، دنیا کے کسی مہذب ملک میں کوئی ایسی مثال موجود نہیں ان ”سرکاری بابوؤں“ کے پاس کئی کئی سرکاری گھر ہوں، محکمے کے کئی کئی نوکر چاکر ہوں، سرکار کی کئی کئی گاڑیاں ہوں، اس کے علاوہ تنخواہوں میں بھی کئی طرح کی عیاشیاں انہیں میسر ہوں، یہ ساری ”لعنتیں“ صرف پاکستان میں ہیں، جہاں عوام روٹی کے ایک نوالے کو ترستے ہیں اور حکمرانوں و افسروں کے کتے و بلیاں دودھ مکھن گوشت کھاتے ہیں، چلیں یہ سب کچھ اگر یہ افسران اپنے ”حقوق“ تصور کرتے ہیں پھر ان کے فرائض میں یہ بھی شامل ہونا چاہئے جس ادارے یا شعبے سے وہ وابستہ ہیں اس کی ترقی کے لئے کوشش کریں، اْس کی بدحالیاں دور کریں، اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں کھسرانہ ہی سہی کوئی کردار ادا کریں، اگر یہ سب کچھ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوروکریٹس نے سیاسی حکمرانوں کے احکامات یا اشاروں پر ہی کرنا ہے پھر بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے رہنے سے بہتر ہے وہ نان چھولوں کی ریڑھیاں لگا لیں، کوئی ان کا اپنا آئیڈیا اپنا وژن یا اپنا فیصلہ بھی ہونا چاہئے کہ نہیں جس سے یہ ظاہر ہو مقابلے کے بڑے بڑے امتخانات انہوں نے چھولے دے کے یا رقمیں وغیرہ دے کے پاس نہیں کئے، اپنی قابلیت و اہلیت سے کئے ہیں، ہفتہ رواں میں کسانوں کے مسائل پر میرا کالم ”کسانوں کو مت مارو“ شائع ہوا، اس روز مجھے وزیراعظم سیکریٹریٹ سے ایک اعلیٰ افسر کا فون آیا، انہوں نے بتایا ”وزیراعظم شہباز شریف نے گندم کی خریداری کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری فوڈ کیپٹن ریٹائرڈ محمد آصف کو ان کے عہدے سے الگ کر کے ایک انکوائری کمیشن قائم کر دیا ہے”، کیپٹن ریٹائرڈ صاحب اْمید ہے جلد ہی کسی اور اہم عہدے پر تعیناتی کا بندوبست فرما لیں گے کہ ہمارے ریٹائرڈ فوجی افسران سول محکموں میں جا کے بھی اپنی سابقہ حیثیت سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں، ابھی حال ہی میں تبادلوں کا ایک بڑا ریلا آیا ہے میں فہرست دیکھ رہا تھا فیلڈ میں زیادہ تر ایسے افسروں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے جو سابقہ فوجی ہیں،”یہ وطن تمہارا ہے ہم ہیں خوامخواہ اس میں“، جہاں تک وزیراعظم کے تحقیقاتی کمیشن کا تعلق ہے میڈیا یا سوشل میڈیا کا عارضی طور پر منہ بند کرنے کے لئے ایسے کمیشن ماضی میں بھی بہت بنتے رہتے ہیں، ان کا کبھی نتیجہ سامنے نہیں آیا، گندم امپورٹ کرنے کا سکینڈل نگران حکومت میں بنا، میں یہ سوچ رہا تھا ہو سکتا ہے اس کی تحقیقات کی ذمہ داری اس وقت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو سونپ دی جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کا کوئی نتیجہ نکال لیں، وہ جتنے طاقتور ہیں اور جتنے طاقتوروں کی انہیں سرپرستی میسر ہے نتیجہ امید ہے اب بھی انہی کے حق میں نکلے گا، ورنہ نکلے گا ہی نہیں، ہمارے طاقتوروں نے ہمارے پاکستان کا مطلب ہی بدل کے رکھ دیا ہے،”پاکستان کا مطلب کیا، رقماں ساہڈے ہتھ پھڑا، تے جیڑا مرضی کام کرا“، حکومت نے پریشان حال کسانوں کے لئے جن پھس پھسی سہولیات کا اعلان کیا ہے کسانوں کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا ہے، حکومت نے اس برس گندم کی خریداری کا ریٹ انتالیس سو روپے فی من مقرر کیا تھا، اس کے بعد حکومت اپنے اس ریٹ سے ”فرار“ ہوگئی، اب ریٹ اٹھائیس سو روپے فی من ہوگیا ہے، کاشتکاروں و کسانوں کا یہ مؤقف یا دہائی بڑی جائز ہے کہ انتہائی مہنگی کھاد، بجلی و دیگر اخراجات جن میں محکمہ خوراک و زراعت کے افسروں کو دئیے جانے والے بھاری نذرانے بھی شامل ہیں کے بعد اتنی کم قیمت پر وہ گندم کیسے بیچیں؟ مسئلہ یہ ہے نگران حکومت کی جانب سے ٹنوں من گندم امپورٹ کرنے کے بعد حکومت کو گندم خریدنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی، اور اگر حکومت نے بلا ضرورت گندم خریدنی ہے اپنے ان ارکان اسمبلی سے خریدے گی جن کا تعلق بڑے بڑے زمیں دار گھرانوں سے ہے اور وہ گندم کاشت کرتے ہیں، باوثوق ذرائع کے مطابق انہیں باردانہ بھی فراہم کر دیا گیا ہے، ان ارکان اسمبلی کی اکثریت اگر کسانوں کے حق میں کھل کر بات نہیں کر رہی یا ان کے احتجاج میں شریک نہیں ہو رہی وہ اس میں حق بجانب ہیں کیونکہ سرکار نے ان کے منہ اْن کی منشا کے مطابق بند کرنے کے سارے اہتمام کر لئے ہیں، ان کی گندم کا ایک دانہ بھی شاید ضائع نہیں ہوگا، مارے وہ عام کسان و کاشتکار جائیں گے جن کا کوئی عزیز کسی اسمبلی کا رکن نہیں ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی ختم کر دی ہے، ان کے اس حکم پر سو فی صد عمل درآمد اگر ہوگیا ظاہر ہے کسانوں کو کچھ نہ کچھ اس کا فائدہ ہی ہوگا، مگر جتنے بڑے نقصان کی توقع کی جارہی ہے اس کے مطابق یہ فائدہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو مزید کئی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ظاہر ہو موجودہ حکومت کسان دشمن نہیں ہے، گزشتہ روز کسانوں نے لاہور میں اپنے حقوق کے لئے پر امن مظاہرہ کیا، پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور بیشمار کسانوں کو گرفتار کر لیا، اس کے بعد ایک ایسا ماحول قائم ہو گیا جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی یہ حکومت واقعی کسان دشمن ہے، ہمارے سیاسی حکمران یہ سمجھتے ہیں جس طرح اْن کے مالکان یا آقا عوام کو ڈنڈوں اور بوٹوں سے دبا لیتے ہیں وہ بھی دبا لیں گے، یہ رویہ ملک کو ایک بند گلی میں لے گیا ہے، مہذب ملکوں میں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے اسے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، پاکستان کا المیہ یہ ہے یہاں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، اوپر سے ہمارے سیاسی و اصلی حکمران ہر مسئلے کو پولیس کے ذریعے دباتے ہیں اس سے پولیس کے خلاف عوام کی نفرتوں میں مذید اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایک زمانے میں سیاسی حکمران مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر کے کچھ مطالبات ان کے مان لیتے تھے کچھ اپنے منوا لیتے تھے، فیلڈ میں بھی زیادہ تر ایسے سول و پولیس افسران تعینات ہوتے تھے جو ان معاملات میں سیاسی حکمرانوں کے لئے آسانیاں پیدا فرماتے تھے، اب ہر شاخ پہ الو آ کے بیٹھ گیا ہے، انجام گلستاں سب کے سامنے ہے، کل ایک محترم وفاقی وزیر فرما رہے تھے”کسان ہمارے سر کا تاج ہیں“۔۔ ہماری التجا ان سے صرف اتنی ہے کسانوں کو زبانی کلامی سر کا تاج بنانے یا کہنے کے بجائے عملی طور پر انہیں اتنی عزت ہی دے دی جائے جتنی عزت آپ بوٹ کو دیتے ہیں۔