”شیر“ کی حکومت یا ”جنگل“ کا قانون

طاقت کو ”جنگل“ کا قانون مانا جاتا ہے اور جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور ”شیر“ ہوتا ہے۔ شیر جب تک شکار کی طاقت رکھتا ہے اس کی حکمرانی قائم رہتی ہے اور جب وہ بوڑھا ہوجاتا ہے اس کی جگہ اس کا وارث ”تخت“ سنبھال لیتا ہے اور اگر کسی جنگل کا شیر صاحب اولاد نہ ہو تو پھر باقی جانور اس ”نظام“ پر قابض ہوجاتے ہیں۔ یہ کہانیاں پڑھتے بوڑھے ہوگئے ان میں کتنی صداقت ہے اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ ہم نے جس علاقے میں جنم لیا اس سے چند کلو میٹر کی دوری پر ایک جنگل کو "آباد” ہوتے دیکھا۔ بہاولپور شہر سے مشرق کی جانب حاصل پور روڈ پر 35 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان کے بڑے جنگلات میں سے ایک جنگل لال سوہانرا نیشنل پارک واقع ہے۔ اتفاق سے یہ جنگل ہمارے گھر سے 15 کلو میٹر دور ہے اس میں سے کچھ قدرتی جنگل اور زیادہ تر مصنوعی ہے کہ 80 کی دہائی میں یہ انسانی ہاتھوں سے لگنا شروع ہوا اور یہ سلسلہ اب بھی سال بھر چلتا رہتا ہے۔ اس جنگل کو نیشنل پارک کا نام دے کر تفریح گاہ بھی بنایا گیا ہے۔ ہمارا آج کا موضوع جنگل ہے اس لئے ہم تفریح گاہ پر آپ کا وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتے موضوع کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ لال سوہانرا نیشنل پارک کا ایک سکینڈل گزشتہ دنوں میڈیا کی زینت بنا جب صوبائی وزیر جنگلات مریم اورنگزیب نے چیف کنزرویٹر ملتان۔ کنزرویٹر بہاولپور سمیت 11 اعلیٰ افسران و اہلکاروں کو معطل کرکے لاہور ٹرانسفر کردیا۔ سینئر وزیر کے اس ایکشن کی خبر ”جنگل“ کی ”آگ“ کی طرح پھیل گئی۔ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں سوکھی لکڑی کے ساتھ ”گیلی“ تو جل کر خاکستر نہیں ہوگئی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان افسران و اہلکاروں کو حکومت پنجاب نے کیا سہولیات مہیا کی تھیں ان کو کتنا بجٹ دیا گیا تھا جس کو خرچ کرنے میں ان سے کوتاہی ہوئی اور وہ اس ”رگڑے“ میں آ گئے۔ مریم اورنگزیب صاحبہ صرف وزیر جنگلات ہی نہیں صوبائی کابینہ کی سینئر وزیر بھی ہیں اس طرح انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ”ڈپٹی“ ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے ان کے منہ سے نکلا ہر لفظ ”قانون“ بن جاتا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں وہ بہت محنت کر رہی ہیں وہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے بہت کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے جب نیشنل پارک کے افسران کو معطل کیا تو ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جو اپنا کام کر رہی ہے۔ اس انکوائری کمیٹی کو ایک رپورٹ کنزرویٹر جنگلات و ایڈمنسٹریٹر نیشنل پارک لال سوہانرا  نے ارسال کی ہے۔ اتفاق سے یہ رپورٹ ہمارے دوست اور بہاولپور کے سینئر صحافی توصیف بھٹی کے ہاتھ لگ گئی ہے ”انکشافات“ سے بھرپور اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت محکمہ جنگلات کو لال سوہانرا نیشنل پارک لاڈم سر رینج کی دیکھ بھال کے لئے سٹاف کی شدید کمی کاسامناہے۔ اس رینج کا ایریا 28ہزار 564 ایکڑ پر مشتمل ہے جس کی حفاظت کے لئے صرف 1 فاریسٹ گارڈ اور 1 بلاک آفیسر موجود ہے ان کے پاس آر ایف او کا ایڈیشنل چارج بھی ہے اس صورتحال میں جنگل کی حفاظت اور اس کے نقصان کو روکنا انتہائی مشکل ہے۔ خبر کے مطابق فاریسٹر کی 14 سیٹوں میں سے 9 خالی ہیں، فاریسٹ گارڈ کی 31 سیٹوں میں سے 18 خالی ہیں، 27 پوسٹیں بلاک آفیسرز اور فاریسٹ گارڈز کی خالی پڑی ہیں زیادہ تر افسران ایڈیشنل چارجز پر کام کررہے ہیں موجودہ سٹاف کو معاونت کیلئے 30 فاریسٹ اسسٹنٹ کی سخت ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اعلیٰ افسران کو متعدد بار تحریری طور پر درخواست بھجوائی گئی مگر ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی، خبر میں مزید انکشاف کیا گیا کہ لال سوہانرا نیشنل پارک کی حفاظت کے لئے ریگولر پٹرولنگ کی انتہائی سخت ضرورت ہے جبکہ اس مقصد کے لئے نہ تو پٹرول وڈیزل دستیاب ہے اور نہ ہی وہیکلز کی مرمت کے لئے فنڈز موجود ہیں۔ 22 اپریل 2024ء کو صرف 7 لاکھ 54 ہزار روپے کے فنڈز فراہم کئے گئے جو نہ ہونے کے برابرہیں اوریہ فنڈ بھی پہلے سے قابل ادائیگی رقوم کی مد میں اداکردئیے گئے اس قرض کی ادائیگی کے بعد اب پھر ہاتھ خالی ہے۔ اس وقت مزید فنڈز جنگل کی حفاظت کے لئے درکارہیں۔ لال سوہانرا نیشنل پارک میں ہونے والے نقصان کی دوسری بڑی وجہ بہاولپور پولیس کاعدم تعاون ہے بروقت ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی اور اگر درج ہو جائے تو ملزمان و لکڑی مافیا کو گرفتار نہیں کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔وزیر جنگلات پنجاب صاحبہ ایڈمنسٹریٹر نیشنل پارک کے اس مراسلے میں کی گئی گذارشات کے بعد آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا ہتھیار کے بغیر بھی جنگ لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔ آپ کے ایکشن سے جہاں کرپٹ اور نااہل افسران کے کان کھڑے ہوگئے وہاں محنتی اور ایماندار افسران بھی پریشان ہو گئے کہ خالی ہاتھ جنگل میں بھیج کر شیر سے پنجہ آزمائی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ محترمہ پہلے انہیں وہ ”ہتھیار“ تو دیں جس سے شیر کا ”شکار“ ہو سکے۔ یہ درست کہ پنجاب میں ”شیر“ کی حکومت ضرور ہے مگر ”جنگل“ کا قانون نہیں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت زمینی حقائق کا جائزہ لے لیا کریں۔